حق مانگنا گناہ ہے حق چھین لیا جائے


لاہور آئے ہوئے اسے ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ شام کے وقت اکثر وہ سڑکوں پر گھومتا رہتا۔ اسے نجانے بے وجہ ہی دوکانداروں سے چیزوں کا بھاؤ پوچھنے کا شوق تھا حالانکہ وہ ان چیزوں کو خریدنا نہیں چاہتا تھا۔ بالکل پہلے ہی طرح آج بھی وہ اچھے سے کپڑے پہن کر سڑک پر گھومنے نکلا۔ ارگرد رکشوں، بسوں اور دوسری گاڑیوں کا شور تھا۔ کچھ لوگ آپس کی گفتگو میں مصروف تھے۔ اس کی منزل کب طے ہوتی تھی ہمیشہ کی طرح بس وہ راستے کے مزے لیتا رہتا۔ آج ایک آئس کریم والے کے پاس سے گزرا تو ایک کی بجائے دو آئس کریم خرید لی۔ ارگرد کے لوگوں کے لیے وہ ایک امیر زادہ تھا۔ جب وہ آئس کریم خرید رہا تھا تو آئس کریم بیچنے والا باربار اس سے پوچھ رہا تھا

بابو! آپ اس کے علاوہ بھی کچھ خریدیں گئے۔
کیا میں آپ کے لیے ٹیکسی منگوا دو۔
مگر اس آئس کریم خرید کر اس کا شکریہ ادا کیا اور آگے چل پڑا۔

اس سڑک پر ہمیشہ کی طرح بھکاریوں کی لائنیں لگی ہوئی تھی۔ وہ سب روز اسے آتا جاتا دیکھتے تھے اس لئے وہ جانتے تھے کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گیا اس لئے ان میں سے کوئی بھی اس سے نہ مانگتا۔

پھر اچانک اس کے پاس سے ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا گزرا۔ یہ کافی عمر کا معلوم ہوتا تھا۔ پچھے سے ایک شور برپا تھا۔ چور چور! اس نے سمجھا کہ شاید یہ بھاگنے والا شخص کوئی قیمتی چیز لے کر بھاگ رہا ہے۔ اس لیے پیچھا کرنا چاہیے۔ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا جو اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ وہ شخص کافی تیزی سے بھاگ رہا تھا اگرچہ وہ عمر میں بزرگ معلوم ہوتا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ آج چور کو پکڑ کر سب سے شاباشی لینے کا موقع ملا ہے تو اس کو پکڑ کر ہی رہوں گا۔

چور چور کی صدائیں بلند تھی کچھ اس جیسے اور بھی نوجوان چور کو پکڑنے والے قافلے میں شامل ہو گئے۔ اب موجودہ صورت حال کسی فلمی سین سے کم نہ تھی۔ آگے آگے چور بھاگ رہا تھا پیچھے پیچھے چور کو پکڑنے کے لیے لوگ وہ چور جن کے بھی پاس سے گزرتا وہ سب ایک مرتبہ چور کی جانب ضرور متوجہ ہوتے۔ اچانک وہ چور سڑک کے اس حصہ میں آگیا جہاں تیز رفتار گاڑیاں گزر رہی تھی۔ ایک لمحہ سب ہی رک گئے۔ اور پھر ایک تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے وہ چور دور جا گرا۔ کچھ لوگ اس کے قریب گئے۔ وہ زخمی حالت میں تھا۔

یہ حادثہ ہوتے ہی وہ لوگ بھاگ گئے جو چور کا پیچھا کر رہے تھے۔ مگر اس نے سوچا کہ ایک مرتبہ قریب جا کر دیکھ کر میں بھی بھاگ جاؤ گا۔ تجس کے ایک لمحہ نے اسے کھینچا اور وہ اس کے قریب چلا گیا۔ اس نے جاکر دیکھا کہ وہ شخص زخمی حالت میں پڑا تھا اور درد کی وجہ سے بمشکل ہی کوئی الفاظ اس کی زبان سے ادا ہوتے۔ ایک شخص قریب سے گزرا اور اس نے کہا : دیکھ لیں! اللہ کی پکڑ ہے یہ اب اسی حالت میں مرو گئے تم۔ چند اور لوگوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی پکڑ ہے۔

چور کی سزا موت تو نہیں ہو سکتی نجانے یہ خیال اس شخص کے ذہن میں کہا سے آ گیا۔ وہ اس چور کے قریب گیا اور بولا! بابا میں ایک غریب آدمی ہوں تمھیں ہسپتال لے چلتا ہوں مگر باقی خرچہ تمھیں خود برداشت کرنا ہو گا۔ ایک لمحہ سکوت کے بعد اس چور نے اچھے سوٹ بوٹ میں اس شخص کو دیکھا اور جواب دیا کہ
نہیں! میری جیب خالی ہے۔ اگر میری جیب میں روپے ہوتے تو میں چوری نہ کرتا۔ مجھے یہی رہنے دو! کسی نے ہمدردی کی تو ٹھیک ورنہ انہی زخموں سے مر جاؤ گا۔ اس نوجوان کی آنکھوں میں آنسوؤں آ گئے۔

اس شخص نے ایک لمحہ بھر کے لیے بھی نہ سوچا اور زور سے چلایا ارے لوگوں! سنتے ہوں یہاں ایک شخص زخمی حالت میں پڑا ہے اس کی تھوڑی سی مدد ہی کر دو! یہ نہایت غریب ہے۔ تھوڑے تھوڑے پیسے ہی دے دو تا کہ اس کا علاج مکمن ہو۔ کسی ایک نے بھی اس کی پکار نہ سنی۔ ایک شخص نے تو اس کا سوٹ دیکھ کر کہا کہ نیا سوٹ کر مانگ رہا ہے۔ اسی کو بیچ لے۔ کسی نے اور طعنہ دیا۔ آخر کافی دیر بعد ایک ریکسیو کی گاڑی آئی اور اس چور کو اٹھا کر لے گئی!

اس کے ذہن میں سارا واقعہ گھومنے لگا کہ کس طرح لوگ سڑک پر بیٹھے پیشہ ور بھکاریوں کی مدد میں مصروف ہیں اور کس طرح سے لوگوں نے ایک مدد کے حقدار کو ٹھکرا دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ چور کیسے پیدا ہوتے ہیں؟
معاشرے میں جب حقدار کو حق نہ ملے تو چور پیدا ہوتے ہیں یہی اس کا جواب تھا۔

جون ایلیا کا ایک مصرعہ اس منظر عکاسی کر رہا تھا
حق مانگنا گناہ ہے حق چھین لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).