ریاستی قوانین اور فرد کا باہمی تعلق


آج میری آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ میں اور میرے کچھ ساتھی اپنی روزمرہ کی پرواز میں مشغول تھے کہ ہم نے ایک خاتون کو جرمنی کے شہر بون کے ریلوے سٹیشن کے عقب میں ہمارے لئے کچھ دانے پھینکتے دیکھا۔ ہم سب اس طرف کو ہو لئے۔ نیچے اترے تو سب اپنی چونچ میں دانے بھرنے میں مشغول ہوئے۔ میں ایک کبوتر ہوں۔ میرا کوئی نام ہے، نہ ذات، نہ برادری۔ میں بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ تھوڑی دور بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور وہ رحم دل خاتون جس کا نام مجھے معلوم نہیں لیکن ابھی کےلئے اسے امن کہہ لیتے ہیں اپنی دانوں کی تھیلی خالی کر رہی تھی۔

بہت خوش تھی وہ ہم سب کو کھاتے دیکھ کر اور متانت کی ایک لہر اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ ہم سب اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف تھے اور امن اپنا سامان سمیٹنے میں۔ اس کے پاس صرف ایک بیگ تھا، رنگت سانولی، قد درمیانہ، بال چھوٹے کٹے ہوئے تھے۔ اس نے کالی پتلون اور کالی شرٹ اور اس کے اوپر ایک بھوری جیکٹ پہن رکھی تھی۔

ابھی ہم سب دل ہی دل میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غٹر غوں کر رہے تھے کہ مشرق کی طرف سے مضبوط جسامت کے دو مرد حضرات نمودار ہوئے جو پولیس کے لباس میں ملبوس تھے۔ وہ امن سے کچھ سوال و جواب کرنے لگے۔ میں نے کھانا چھوڑا اور تھوڑی دور کھڑا ان کی گفت و شنید سننے لگا۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ جرمنی کے قانون کے مطابق کبوتروں کو دانہ ڈالنا جرم ہے لہٰذا یہ افسران امن سے استفسار کرنے لگے کہ اس نے یہ حکم عدولی کیسے اور کیونکر کی۔ امن کے چہرے کی خوشی پہلے خفگی پھر مایوسی اور بالآخر غصے میں بدل گئی۔ میں دیکھتا رہ گیا۔

اس منظر نامے سے ہم کبوتر غائب ہو گئے اور بحث قانون، ریاست کی رٹ اور ایک شہری کی مبینہ حکم عدولی میں بدل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک پولیس کی گاڑی یہاں پہنچ گئی جس میں سے ایک مرد اور خاتون افسران برآمد ہوئے۔ موقع پر پہلے سے موجود دونوں افسران نے آنے والوں کو واقعہ کی تفصیلات بتائیں۔ ان میں سے ایک صاحب جو کہ شاید ان کا باس تھا نے اپنی جیب سے کاپی نکالی اور ان تفصیلات کو درج کرنا شروع کیا۔ دریں اثنا باقی افسران امن کے بُرے رویے، مبینہ حکم عدولی وار جرم ثابت کرنے اور غصے سے بات کرنے پر اسے زدو کوب کرنے لگے۔

ایک طرف امن کھڑی تھی۔ ایک نہتی، بے ضرر، معصوم، پرندہ دوست عورت جس نے کچھ کبوتروں کو دانہ ڈالنے کا جرم کیا تھا اور دوسری طرف سر تا پا ریاستی سامان سے لیس چار پولیس والے جو یہ تخمینہ لگانے میں مصروف تھے کہ اسے کیا سزا دی جائے، تھانے لے جایا جائے یا یہیں کچھ جرمانہ کر کے تھوڑی بہت سرزنش کے بعد جانے دیا جائے۔ ان کے نزدیک زیادہ بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ امن کو اس بار پر قائل کریں کہ وہ ایک جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ حالانکہ اس نقل و حرکت کے سبب میرے بیش تر دوست اڑ گئے تھے مگر میں اس مقام سے ہل نہیں پایا کیونکہ اس منظر نے میرے ذہن میں کئی سوال کھڑے کر دیے تھے۔

کیا ریاست اور اس کا قانون بھی غلط ہو سکتے ہیں؟ کیا قانون ایک لا تعلق وجود ہے جس کے لئے کسی کاغذ پر لکھے الفاط ہر جذبۂ انسانی سے بالاتر ہیں؟ میں ان سوالوں پر غور کر رہا تھا۔ آخر امن بھی تو اسی ریاست کی شہری تھی اور بظاہر اس کا عمل کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہیں تھا بلکہ چند بھوکے کبوتروں کی بھوک مٹانے کے لئے اپنی استعداد کے مطابق ایک کوشش تھی مگر وہ بے چاری اس وقت مجرم بنے بے آسرا چار افسروں کی باتیں سننے اور سر ہلانے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔

قانون بڑی مضبوط چیز ہے اور ایک سماجی آلہ ہے جو کسی سماجی رویےکی عکاسی ہے۔ مجھے یاد ہے چند روز پہلے ہالینڈ سے آئے ہمارے کچھ دوستوں نے ہمیں بتایا کہ ایمسٹرڈیم شہر کے مرکزی چوراہے ڈام پلاٹس میں، جہاں کوئی مدام توساؤ نامی میوزیم بھی ہے، سب سے مرغوب عمل ہم کبوتروں کو دانہ ڈالنا ہے۔ لوگ جوق در جوق اس جگہ آتے ہیں، اپنے ساتھ دانوں کی تھیلیاں لاتے ہیں اور میرے دوست بڑے مزے سے لوگوں کے ہاتھوں سے یہ دانے کھاتے ہیں۔ جبکہ یہاں جرمنی میں ہم کبوتروں کو دانہ ڈالنا کسی شہری کے لئے مہنگا پڑ جاتا ہے۔ امن اور پولیس والوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا بغور جائزہ لینے سے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ان افسران کے نزدیک ہم کبوتروں کا وجود اہم نہیں تھا بلکہ وہ کاغذ کا ٹکڑا اہم تھا جس پہ یہ لکھا تھا کہ ایسا کرنا جرم ہے۔

ان کی اخلاقیات اس ادارے کے کلچرمیں ڈھل چکی تھی جو چیزوں کو من و عن قانون نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے اور جس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ قانون کوئی عقلی جواز رکھتا ہے یا نہیں۔ مجھے یوں لگا کہ ریاست جیسے ان قوانین کی پیداوار ہے جو اس کے یہ ادارے لوگوں کو ماننے اور مانتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں، پھر چاہے ان تصورات کی کوئی اخلاقی یا عقلی توجیح ہو یا نہ ہو۔ پولیس والوں کے نزدیک قانون کی بالا دستی محکم تھی جبکہ امن کے نزدیک اس کا جذبۂ انسانی جو یہ کہتا ہے کہ کبوتروں کو دانہ ڈالنا چاہے قانونی نہیں مگر پھر بھی ایک اچھی بات ہے۔ میرے نزدیک یہ سارا عمل مضحکہ خیز حد تک دلچسپ تھا کیونکہ میرا وجود اس سارے عمل میں غائب ہو گیا تھا جبکہ کہنے کو میں اس کہانی کا مرکزی کردار تھا۔

آدھ پون گھنٹے بعد جب پولیس والے امن کو خاموش کرانے اور ان کی نظر میں اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اس نے قانون توڑا ہے تو وہ چپ چاپ کھڑے بس سر ہلا رہی تھی اور انتظار کر رہی تھی کہ اس منظر کا drop scene آخر کیا ہو گا کہ اچانک ایک شور برپا ہوا۔ کچھ فرلانگ دور ان افسران کے ایک ساتھی نے ایک مشکوک شخص کو دیکھا اور جب وہ پوچھ گچھ کرنے اس کی طرف بڑھا تو اس شخص نے دوڑ لگا دی۔ چاروں پولیس والے اس نئے شکار کی طرف بے حد تیزی سے دوڑے۔ اس دوران امن نے اپنا سامان سمیٹا اور وہاں سے چلنے لگی۔ احساسِ ندامت اور بے بسی اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ ارد گرد بیٹھے لوگوں کی نظروں کو دیکھ کر وہ embarrass ہو گئی اور کچھ دور ایک چبوترے پر جا بیٹھی جہاں موجود کچھ بے گھر لوگوں نے جنہیں عرف عام میں یہاں homeless people کہتے ہیں، اس سے اظہارِ ہمدردی کیا اور اس کی ڈھارس بندھائی۔

میری بے زبانی آڑے آ گئی ورنہ میں بھی تشفی کے چند الفاظ کہنا چاہتا تھا۔ مزے کے بات یہ ہے کہ جب چاروں پولیس والے مشکوک شخص کو پکڑ کا اپنی گاڑی میں ڈال کر فارغ ہوئے تو کسی نے مڑ کر واپس امن کو نہیں پکارا، کوئی آخری کلمات نہیں کہے، بلکہ ایسے وہاں سے چل دیے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور پچھلے گھنٹے کی ساری محنت گویا جیسے بس اپنا ”فرض‘‘ نبھانے کی مشق میں صرف ہو گئی۔ اب اس مقام پر نہ ہی امن ہے، نہ ہی وہ پولیس والے، مگر وہ دانے جو امن نے بکھیرے جسے میں اور میرے دوست مزے سے گاہے بگاہے چننے میں دوبارہ مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).