خارجی محاذ پر عمران حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے


اگر خارجہ امور کی نزاکتوں، پیچدگیوں اور مجبوریوں سے آگہی رکھنے والے حلقوں کی عمومی رائے کا جائزہ لیا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد سے دیگر حکومتی معاملات کی طرح خارجی سطح پر عمران حکومت سے پہ در پہ ایسی غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں جن سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔ اس حوالہ سے وزیراعظم عمران خان کی امرہکی وزیرخارجہ پمپیو سے فون پر ہونے والی بات چیت کا ذکر کیا جاتا ہے۔

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو سے امریکی وزیر خارجہ کی فون کی بجائے اپنے ہم منصب یعنی امریکی صدر سے تہنیتی پیغام موصول کرنا چاہیے تھا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ گو اس سلسلہ میں عالمی سطح پر کوئی طے شدہ سفارتی اصول نہیں لیکن عموما“ فون پر ایسی گفتگو ہم منصبوں کے درمیان ہی ہوتی ہے۔ یہاں مسئلہ فون کال موصول کرنے کا نہیں بلکہ فون پر ہونے والی بات چیت کا بھی ہے۔ دونوں ممالک کے دفاتر خارجہ اور ہمارے وزیر خارجہ بھی وزیراعظم عمران خان اور امریکی وزیرخارجہ پمپیو کے مابین ہونے والی گفتگو پر متضاد بیانات دیتے پائے گے۔ آخری اطلاعات ملنے تک امریکہ نے شاید اپنے دعوے کے حق میں فون کال کا ٹرانسکرپٹ بطور ثبوت پیش کر دیا ہے۔

ابھی چند دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے ایک ملاقات کی۔ اس ملاقات کے حوالہ سے یہ خبر جو کہ بعد میں غلط ثابت ہوئی، پھیلی یا پھیلائی گئی کہ عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران فرانسیسی صدر میکارون کا فون سننے سے دو مرتبہ انکار کیا۔ اس رویہ کو جو سفارتی آداب کی منافی ہے کو پاکستان کے وزیراعظم کی سفارتی دلیر ی سے منسوب کیا گیا۔ یہ اچھا ہوا کہ خبر میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ فون فرانسیسی صدر نہیں پاکستان میں موجود فرانسیسی سفارتخانے کے کسی اہلکار کا تھا۔ ہالینڈ میں دائیں بازو کے سیاستدان کی جانب سے خاکوں کے مقابلے کے منسوخ قرار دیے جانے کو سفارتی فتح قرار دینا حکومت وقت کی ایک اور بچگانہ حرکت تھی۔

ہالینڈ کے آئین کے پہلے باب کے آرٹیکل نمبر 1 شق نمبر 1 اور آرٹیکل 6 کی شق نمبر 1 پڑھنے کی اگر کوئی زخمت کرئے تو پتہ چلتا ہے کہ آئین فرد اور فرد کی مذہبی آزادی کو ہقینی بناتا ہے۔ اور آئین میں دی جانے والی اس آزادی کا مطلب جبری گمشدگی ہرگز نہیں۔ چلئے اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی شق سات کے مطابق اقوام متحدہ کسی بھی رکن ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرئے گا۔ اور اگر اس بیوقوفانہ دلیل کو مان بھی لیا جائے کہ اقوام متحدہ پاکستان اور اسلامی ممالک کے کہنے پر ہالینڈ دوسرے الفاظ میں یورپین ہونین کے اندرونی معاملات میں دخل دے گا۔

تو کیا بھر پاکستان، ہالینٖڈ یا کسی اور یورپی ملک کو یہ اجازت دے گا کو وہ کسی مذہبی مسئلہ کو بنیاد بنا کر اقوام متحدہ سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی درخواست کریں۔ اہسا نہیں ہوتا۔ محض سیاست چمکانے کے لیے یہ بیان درست محسوس ہوتے ہیں۔ اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے ذرا غور کریں یورپی یونین اور ہالینڈ کی حکومت کو پاکستانی حکومت اور وزیر خارجہ کے اس استدلال کہ انہوں نے ہالینڈ کی حکومت پر اثرانداز ہو کر خاکوں کا مقابلہ رکوایا ہے سے کیا پیغام ملے گا۔ لیکن ہم اس پہلو پر سوچنے کی زخمت نہیں کریں گے۔ اقتدار میں براجمان ہونے کے بعد قیل عرصہ میں عمران حکومت سے خارجی محاذ پر جو کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں وہ اپنی جگہ لیکن میری رائے میں عمران حکومت سفارتی امور سے پچھلی دو حکومتوں سے زیادہ بہتر طریقہ سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔

سفارتی امور پر حکومت سے متعلق میری مثبت رائے قائم کرنے کی اولین وجہ وزیراعظم عمران خان کا جی ایچ کیو حالیہ دورہ ہے۔ اس دورہ سے متعلق کی جانے والی اخباری رپورٹنگ اور سرکاری طور پر شائع کی جانے والی تصاویر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک وزیراعظم اپنے زیرانتظام ایک ادارہ کا دورہ کر رہے ہے۔ میں پاکستان میں طاقت کے توازن سے پوری طرح آگاہ ہوں اور میں ہرگز عمران حکومت کے سفارتی مستقبل کی شاعرانہ منظر کشی نہیں کر رہا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں عمران حکومت کا آغاز حوصلہ مند ہے اور حکومت کو اپنی سفارتی پالیسی کی تشکیل میں یہ سپیس اچھے طریقہ سے استعمال کرنی چاہیے۔ ہاد رہے پاکستان کے امریکہ، انڈیا اور افغانستان سے سفارتی تعلقات پر پائے جانے والے اختلافات ماضی میں فوج اور سول حکومت کے درمیان عدم اعتماد اور تنازعات کا باعث بنتے رہے رہیں۔ گذشتہ نواز حکومت میں پاک بھارت کے تعلقات فوج اور حکومت کے درمیان تنازعہ کا باعث بنے۔ اس تناظر میں ”مودی کا یار“ کے نعرے ہمیں یاد رکھنے چاہیے۔ زرداری حکومت میں کیری لوگر بل، ریمنڈ ڈیوس اور پھر حسین حقانی کے معاملہ پر تنازعات نے جنم لیا۔

جنرل مشرف کی چھیڑی کارگل جنگ نے نواز حکومت کا خاتمہ کیا۔ عمران حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے جی ایچ کیو میں وہ پذیرائی ملی جو ان سے پہلے شاید کسی وزیراعظم کو نہیں ملی۔ ایک اور بات جس کا کریڈٹ ذاتی طور پر عمران خان کو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کا حلف لینے کے بعد خارجہ امور اور ممالک کے درمیان تعلقات پر اپنے پر جوش خیالات کا اظہار کم کردیا ہے۔ میرے لئے یہ بات باعث حیرت تھی ہمارے وزیراعظم نے اپنی جماعت کی جانب سے بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے موصول ہوئے تہنیتی پیغام کی غلط تشریح، پمپیو فون کال پر کھڑے ہونے والے تنازعے، ہالینڈ میں خاکوں کے مقابلے اور پاک امریکہ سفارتی تعلقات پر سوشل میڈیا پر کوئی جذباتی بیان نہیں داغا۔ مجھے تو اس بات نے بھی حیران کیا کہ نوجوت سنگھ سدھو کے معاملہ پر سوشل میڈیا پر عمران خان کا رویہ معاندانہ کم اور دوستانہ زیادہ تھا۔

اس وقت پاکستان میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں جو ہے وہ تتر بتر ہے۔ عمران خان کا سب سے بڑا سیاسی حریف سزا بھگت رہا ہے۔ پاکستان میں طاقت کے سب سے بڑے ادارہ نے عمران خان کو وزیراعظم تسلیم کر لیا ہے۔ اب یہ کام عمران حکومت اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ہے کہ وہ کس طرح ملک کی خارجہ پالیسی کو وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق آگے بڑھاتے ہیں۔ بے شک کسی بھی ملک کے معاشی اور سماجی حالات اس کی خارجہ پالیسی پر نظرانداز ہوتے ہیں۔ اس لحاظ پاکستان کو بہت سے چیلینجز کا سامنا ہے۔ لیکن جہاں تک سیاسی حالات اور طاقت کے توازن کا تعلق ہے عمران حکومت کے لئے ماحول انتہائی موزوں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).