سب سے مشکل اور سب سے خوشگوار مریض


سوزن سونٹاگ نے کہا کہ ”بیماری زندگی کی رات کا حصہ ہے، یہ ایک مشکل شہریت ہے۔ ہر پیدا ہونے والا انسان دو شہریتیں‌ رکھتا ہے، ایک صحت مند ریاست کی اور دوسری بیمار ریاست کی۔ حالانکہ ہم سب یہی چاہتے ہیں‌ کہ بہتر پاسپورٹ استعمال کرتے رہیں‌ لیکن جلد یا بدیر ہم میں‌ سے ہر کسی کو اس دوسری ریاست کے شہری کی شناخت اپنانی ہوتی ہے۔ “

سارا دن لوگوں‌ کے دکھ اور تکلیفیں‌ سنتے سنتے یہ مشکل ہے کہ کسی بھی انسان کے دماغ، احساسات اور جذبات پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے۔ ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ آج آپ کا سب سے مشکل مریض‌ کون تھا؟ اس دن کا سب سے مشکل کیس یہ ہے۔ ایک شام کو ایمرجنسی روم کی ڈاکٹر کا فون آیا اور اس نے کہا کہ یہاں‌ ایک اٹھارہ سال کا لڑکا آیا ہے جس کی بلڈ شوگر 400 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہے۔ اس کو پہلے سے ذیابیطس تشخیص نہیں‌ ہوئی ہے۔ اس کا کیا کریں؟

مریض‌ چونکہ اتنا بیمار نہیں‌ تھا کہ ہسپتال میں‌ داخل کرنا پڑے، میں‌ نے ان کو یہی مشورہ دیا کہ اس کو نارمل سیلین پانی کی ڈرپ چڑھائیں، اتنی انسولین دے دیں اور کہیں صبح‌ جب ہمارا کلینک دوبارہ کھلے تو وہاں دکھانے آجائے۔ اگلے دن ہم لوگ بہت مصروف تھے۔ ان لوگوں‌ نے پانچ فون میسج چھوڑے۔ جب تک نرس کو میسج چیک کرنے کا موقع ملا تو دوپہر ہوچکی تھی۔ اس کو دن کے آخر میں‌ دیکھا جب سارے مریض جاچکے تھے۔

یہ میرے بیٹے کی عمر کا لڑکا تھا جس نے ابھی یونیورسٹی میں‌ جانا شروع کیا تھا اور کچھ دن ہی گزرے تھے۔ یہ نئے اسٹوڈنٹس کافی مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ نیا نیا کالج شروع کیا ہے، ابھی ان کو راستے اور اسکیجول وغیرہ بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں‌ آئے ہیں۔ پہلے دن میرے بیٹے نے پریشانی سے ٹیکسٹ کیا کہ یونیورسٹی میں‌ پارکنگ کی جگہ نہیں‌ مل رہی ہے اور اس کو اس دن کلاس مس کرنا پڑی۔ یعنی اپنے شہر میں‌ یونیورسٹی ہوتے ہوئے بھی پریشانی ہوتی ہے۔

کون سی کتابیں‌ خریدنی ہیں؟ کیا پڑھنا ہے؟ کون سے پروفیسر کا پڑھانے کا انداز کیسا ہے؟ یہ ہائی اسکول کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ اس وقت اس مریض‌ کو زندگی بھر کے لیے ساتھ رہنے والی بیماری کے ایک اور چیلنج کی ضرورت نہیں‌ تھی۔ لیکن مصیبت یا بیماری کا کوئی بھی درست وقت نہیں‌ ہوتا۔ اس وقت تک اس کی ماں‌ بھی کینساس اسٹیٹ سے پہنچ چکی تھی۔ کینساس سٹی یہاں‌ سے پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلے پر ہے۔ وہ لوگ بہت پریشان لگ رہے تھے اور دونوں‌ کی آنکھوں‌ میں آنسو تھے۔
شیکسپئر نے کہا کہ
Diseases desperate grown, By desperate appliance are relieved, Or not at all.

میں‌ نے ان کو بتایا کہ اس لڑکے کو ٹائپ ون ذیابیطس ہے جس کا علاج صرف انسولین سے ممکن ہے۔ اس کو سمجھایا کہ کس طرح‌ دن میں‌ تین چار مرتبہ شوگر چیک کرنی ہے اور انسولین کی دو اقسام ہیں۔ ایک طویل عرصے کی انسولین جس کو دن میں‌ ایک مرتبہ لینا ہے اور جلدی سے کام کرنے والی انسولین جس کو کھانے سے پہلے لینا ہے۔ ان کو بتایا کہ کس طرح‌ انسولین کی ڈوز گھٹانی یا بڑھانی ہے۔ ان کو تمام ضروری دوائیں ‌اور آلے دے کر، ذیابیطس ایجوکیشن کی کلاس میں‌ بھی بھیجا اور کہا کہ ایک ہفتہ بعد واپس آئے۔

انسولین ایجاد ہونے سے پہلے جن لوگوں‌ کو ٹائپ ون ذیابیطس ہو جاتی تھی تو وہ 12 مہینے کے عرصے میں‌ چل بستے تھے۔ انسولین نے بہت سی جانیں بچائی ہیں اور اس کو مصیبت نہیں بلکہ رحمت سمجھنا چاہئیے۔ اکثر لوگ سوئیوں‌ سے گھبراتے ہیں لیکن آج کل بالکل باریک سوئیاں‌ دستیاب ہیں۔ بلکہ اب تو انسولین کے پمپ بھی نکل آئے ہیں جو گلوکوز مانیٹر کے ساتھ بلڈ شوگر کے لحاظ سے انسولین کی ڈوز خود سے گھٹا بڑھا سکتے ہیں۔

ایک ہفتے بعد مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آج آپ کا سب سے خوشگوار کیس کونسا تھا؟ اوہ وہی لڑکا! ایک ہفتے کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے اور اس نے اپنی زندگی کی اس نئی حقیقت سے سمجھوتا کرلیا تھا۔ گلوکومیٹر کے ڈاؤن لوڈ سے پتا چلا کہ وہ دن میں‌ پانچ چھ مرتبہ شوگر چیک کررہا تھا اور اس کے نمبر بہتر ہوگئے تھے۔ اس کی ماں‌ دو تین دن اس کے ساتھ رہ کر واپس چلی گئی تھی۔ ان کے اور بھی بچے تھے اور جاب بھی تھی۔

اس ایک ہفتے میں‌ ساری فیملی مل کر ٹائپ ون ذیابیطس کے بارے میں‌ پڑھتی رہی اور وہ فون پر رابطے میں‌ رہے۔ اس دوران اس نے ذیابیطس کی ایجوکیشن کی کلاس بھی لے لی تھی۔ وہ انسولین پمپ میں‌ کافی دلچسپی رکھتا تھا اور وہ ہی میرے خیال میں‌ اس کے لیے اچھا بھی رہے گا۔ کسی بھی مسئلے کے بارے میں‌ زیادہ سے زیادہ سیکھ کر ہم اس کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ تعلیم سے نامعلوم کا خوف کم ہوجاتا ہے۔ ویسے تو ہر بیماری کے مریض‌ کو اپنی بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن ذیابیطس کے مریض کے لیے یہ بات اور بھی اہم ہے۔ زندگی اور دنیا وقت کے ساتھ ساتھ آسان نہیں‌ ہوتی جاتی، ہم ہی اس سے نبٹنے میں‌ بہتر ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).