اٹھارویں ایشین گیمز اور پاکستان


اٹھارویں ایشین گیمز انڈ ونیشیا کے دو شہروں جکارتہ اور پالیمبانگ میں18 اگست سے 2 ستمبر تک منعقد ہوئے۔ ایشین گیمز میں مجموعی طور 40 کھیلوں کے 465 مقابلے ہوئے جن میں ایشیا کے 46 ملکوں سے ایک اندازے کے مطابق 17 ہزار ایتھلیٹس اور آفیشلز نے حصہ لیا۔ 37 ملکو ں نے مجموعی طور پر1552 میڈلز حاصل کیے، جن میں سونے اور چاندی کے 465 جبکہ کانسی کے 622 میڈلز شامل ہیں۔ 9 ممالک کے ایتھلیٹس کے نصیب میں کو ئی بھی میڈل نہ آسکا۔ میڈلز ٹیبل کی پہلی تین پوزیشن پر چین، جاپان اور کوریا براجمان ہوئے۔ ان ممالک نے بالترتیب 289، 205 اور 177 میڈلز حاصلکیے۔ چوتھی پوزیشن پر انڈ ونیشیا نے قبضہ کیا، اسے حاصل ہونے والے میڈلز کی تعداد 98 رہی۔ پاکستان کی طرف سے 351 کھلاڑیوں اور آفیشلز نے36 مقابلوں میں حصہ لیا اور یوں صرف 4 کانسی کے تمغے اس کے حصے میں آئے۔ میڈلز ٹیبل پرنظر آنے والے 37 ممالک میں پاکستان کی پوزیشن 34 رہی۔ ہمسایہ ملک بھارت نے 69 میڈل حاصل کیے اور میڈلز ٹیبل پر نمبر 8 پوزیشن پرنظر آیا۔

پاکستان آبا دی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹابڑا ملک ہے، اور اس کی40 سے 50 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے بھارت، چین اور انڈونیشیا جیسے بڑی آبادی والے ممالک نے ایشین گیمز میں اپنی دھاک بٹھائی، پاکستان بھی کہیں ان کے آس پاس دکھا ئی دیتا مگر ایسا نہ ہوا۔ زیادہ تعداد میں میڈل جیتنے والے ممالک کی طرف سے ان کھیلوں میں شرکت کرنے والے ہر ملک کے انفرادی دستے کی تعداد 700 سے زائد ایتھلیٹس پر مشتمل تھی لہذہ ان کھلاڑیوں کے میڈل جیتنے کے مواقع بھی زیادہ تھے۔ سو اس نسبت سے، چین اور جاپان کے 3 کھلاڑیوں نے ایک میڈل جیتنے کی راہ ہموار کی۔

کوریا اور انڈونیشیا کے لئے یہ نسبت 5 اور 10 کھلاڑی بالترتیب فی تمغہ ٹھہری۔ پاکستان سے شرکت کرنے والے کھلاڑی 312 تھے جنہوں نے کل 4 کانسی کے تمغے جیتے گویا پاکستان کی نسبت فی تمغہ 78 کھلاڑی بنی۔ ان اعدادو شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کا ملک ہونے کے باوجود یہاں سے روانہ ہونے والا دستہ نمایاں کارکردگی دکھانے والے ممالک کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ سا ئز میں چھوٹا تھا بلکہ کارکردگی میں بھی ان سے کمتر تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مکاؤ جیسا چھوٹا سا ملک جس کی آبادی پاکستان کی آبادی کا صرف اعشاریہ تین فیصد ہے، میڈلز ٹیبل پر اس کیپوزیشن کا نمبر بھی 26 ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ کیوں دوسری ایشیائی قومیں ٹیکنالوجی، معیشت، تعلیم میں ہم سے بہت آگے نکل جانے کے بعد کھیل کے میدان میں بھی ہمیں مات کرگئیں، ویسے تو بھلے دنوں میں بھی ہم صرف 4 سے 5 کھیلوں میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہے تھے، مگر تب بھی دوسرے ممالک بیسوں کھیل کھیلتے اور کامیابیاں سمیٹتے تھے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں عالمی سطح پر اس امر کو تسلیم کرلیا گیا ہے، کہ ترقی محظ فی کس آمدنی زیادہ ہونے کا نام نہیں، بلکہ کسی ملک کی ترقی کا ایک اعشاریہ اس ملک کے کھلاڑیوں کی مختلف کھیلوں میں کارکردگی بھی ہے۔

چین، جاپان، کوریا جیسے ممالک میں کھیلوں کو باقاعدہ پالیسی ایشوز کی اہمیت حاصل ہے۔ چین ہی کی مثال لے لیں، ان کا یہ مقصد ہے کہ آنیوالے ایک اور عشرے تک وہ عالمی سطح پر چین کو کھیلوں کے لئے بھی ایک قائدانہ ملک کے طور پر پیش کریں گے۔ چین، کوریا اور جاپان میں کھیل ان کی ثقافت کا حصہ ہیں۔ مزید یہ کہ ملکی سطح پر کھیلوں کے لئے لا تعداد تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں سرکاری اور نجی سطح پر کھیلوں کے فروغ، کھلاڑیوں کی ٹریننگ، کھیل کے میدانوں کی فراہمی، فنڈز کی فراہمی، نوجوانوں کی تربیت اور کھیلوں کی انسانی زندگی میں اہمیت پر کام کرتی ہیں۔ قابل کھلاڑیوں کو غم معاش سے آزاد کرنے کے لئے ان کے لئے مناسب روزگار کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر مشہور اور لائق ترین کوچ اور مختلف کھیلوں کے ماہر کو اپنے ملک بلا کر اپنے کھلاڑیوں کو متعلقہ کھیلوں کے لئے تیا ر کیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے اور حالیہ مقابلوں میں اس کا چوتھی پوزیشن حاصل کرنا اس ملک کی کھیلوں کے لئے سنجیدگی اور سرگرم عمل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت ترقی کے راستے پر گامزن ہوا تو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس نے بھی اس حقیقت کا ادراک کیا کہ ایک صحتمند اور تعمیری قوم اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی سے پہچانی جاتی ہے لہذا پچھلے چار ایشین گیمز میں بھارت کی کاردکردگی قابل تحسین رہی ہے۔

1951 سے لے کر 1990 تک ہونے والے پہلے 11 ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان کی پوزیشن نمبر4 سے 13 کے درمیان رہی۔ جبکہ 1994 سے 2018 تک ہونے والے مقابلوں میں اس کیپوزیشن نمبر 16 سے 34 کے درمیان رہی۔ حالیہ مقابلوں میں پاکستان نے تاریخی طور پر سب سے بری اور ایسی کارکردگی دکھائی کہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان کئی دوسرے شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی ترقی معکوس کر رہا ہے۔ بقول شاعر، زوال آئے تو پورے کمال میں آئے۔ ویسے تو ان نتائج کی وجوہات کئی ہیں مگر راقم الحروف کی نظر میں درج ذیل بہت اہم ہیں۔ 1۔ قومی اور صوبائی سطح پر موثر سپورٹس پالیسی کا نہ ہونایا زمانے سے ہم آہنگ نہ ہونا۔ 2۔ حکومتی عدم دلچسپی اور کھیلوں کو قوم کی نشونما اور ترقی کے لئے اہم نہ سمجھنا۔ 3۔ صوبائی اور ضلعی سطح پر مطلوبہ کھیل کے میدانوں اور سپورٹس کمپلیکس کا نہ ہونا۔ 4۔ منا سب تنظیمی ڈھانچوں کی عدم موجودگی اور موجود ہ ڈھانچوں کا غیر موثر اور غیر فعال ہونا۔ 5۔ کھیلوں کی ترویج اور ترقی کے لئے مطلوبہ مالیاتی رقوم کی فراہمی کا نہ ہونا۔ 6۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی ترویج کا نہ ہونا اور تعلیمی سلیبس میں اس کا خاطر خواہ ذکر نہ ہونا 7۔ کھلاڑیوں کی پذیرائی کا نہ ہو نا اور ان کے لئے مناسب ذریعہ معاش کا بندوبست نہ کرنا۔ 8۔ بین الاقوامی ماہرین سے کھیلوں کے فروغ میں مدد حا صل نہ کرنا۔ 9۔ چند کھیلوں پر توجہ دینا۔ 10۔ ٹیلنٹ کی نشاندہی اور تربیت کا مناسب انتظام نہ ہونا

کھیل کسی بھی قوم کی تعمیرو تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس قوم کو ایک تعمیری سوچ اور مثبت فکر عطا کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ کھیلوں میں نام پیدا کرنے والے کھلاڑ ی اس ملک کا ایک بہترین تصور اقوام عالم کے سامنے لاتے ہیں۔ اور اس حقیقت سے کس کو انکار ہے کہ فراغت کے اوقات میں کھیلوں میں مشغول نوجوان لا تعداد معاشرتی برائیوں سے دور رہتے ہیں۔ حالیہ مقابلوں میں پاکستان کی کارکردگی چیخ چیخ کر اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو حکومتی توجہ کی جس قدر ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

تحریک انصاف کی حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو ہم جیسے بے شمار پاکستانیوں کو ایک آس سی لگ گئی کہ شاید اس قوم کی ناگفتہ بہ حالت اب کچھ سنور جائے۔ جہاں اس ملک کے بہت سے شعبوں کو تبدیلی کی اشد ضرورت ہے وہاں کھیل اور اس ملک کے کھلاڑی بھی اس کی توجہ کے منتظر ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اس قدر اہم مسئلے کو اپنی ترجیح کیوں نہ بنایا اور کیوں 2005 کے بعد سے آج تک ایک نئی اور جامع سپورٹس پالیسی سامنے نہ آسکی جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ جناب وزیراعظم خود ایک کھلاڑی رہ چکے ہیں اور شخصیت کی تعمیر میں کھیل کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ان کو مسند وزارت پر لانے والے اس ملک کے لاکھوں نوجوان ہیں اور کھیل ان نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی ضرورت ہے لہذہ اس شعبے کو مزید نظر اندازنہ کرکے نیا پاکستان بنانے کے خواب کو تعبیر دینے کی سعی کی جائے۔

راقم الحروف نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان کا تدارک ہی کھیل اور کھلاڑیوں کے مسائل کا حل ہے اور اگران کو بروقت مد نظر رکھ لیا گیا تونہ صرف پاکستان کا ایک بہتراور بین الاقوامی چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا بلکہ یہ قوم چاک و چوبند قوم کے طور پر سامنے آئی گی جو اس وقت کی سب سے اہم ملکی اور بین الاقوامی ضرورت ہے۔ کھیلوں کا فروغ معیشت سے جڑی بہت سی صنعتوں کی بہتری کا باعث بھی بن سکتا ہے، جہاں کھیل اور اس سے جڑے سامان بنتے ہیں۔ اسی طرح مسائل کے مناسب حل کے بعد وہ وقت بھی آئے گا جب اس پیارے وطن کے کھلاڑی دنیا میں کھیلے جانیوالا ہر کھیل کھیلنے لگیں گے۔ اور پھر وہ دن دور نہ ہوگا جب بین الاقوامی سطح کے مقابلے جیسے اولمپک، ایشین گیمز اور ورلڈکپ یہاں منعقد ہوں گے اور اس ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو ان مقابلوں کے انعقاد سے اربوں کی آمدنی ہوا کرے گی۔ محض حوالے کے لئے اتنا کافی ہوگا کہ انڈونیشیا میں ہونے والے حالیہ ایشین گیمز سے ایک اندازے کے مطابق اس ملک کی معیشت کو تین ارب ڈالر کی آمدنی کی توقع تھی۔ کیا نئے پاکستان میں اس طرح کے کسی مقابلے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).