احتساب


آج کل احتساب کا سیلاب عتاب اور عذاب کی طرح ارباب اور اصحاب کے اعصاب پر سوار ہے۔ مانا کہ یہ اصول ہے کہ انصاف کے حصول کو اگر طول دیا جائے تو وہ مقبول نہیں رہتا۔ مگر اشراف میں اگر انصاف کے اوصاف نہ ہوں تو اطراف میں اختلاف بڑھ جاتا ہے۔ جہاں انصاف منقود ہوتا ہے، وہاں کوئی نمرود آلِ ابراھیم کے امتحان کے لیے موجود ہوتا ہے۔ دنیا کی بقا اور خدا کی رضا کے لیے جزا و سزا کا کھرا فیصلہ ضروری ہی نہیں بلکہ مجبوری بھی ہے۔

جیسے کچھ میزبان کھانا شروع کرتے ہوئے بھری میز سے جو نہ اُٹھایا جائے اُسی پراعتراض کرتے ہیں ایسے ہی عدل پر تنقید و تجوید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ یہ اشراف اختلاف کرتے ہوئے دشت تو دشت دریا بھی نہیں چھوڑتے۔ احتمال سے بھرپور اقوال اُچھال کر وبال ڈال دیتے ہیں۔ فقیر ہو یا وزیر، بلا تاخیر تحریر و تحقیر کی شمشیر سے مخالف کو تسخیر کرتے رہیتے ہیں۔ ان کے مخاطب کے حالات وہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہیں غلط ناپ کا جوتا پہن کر چلنے کا تجربہ ہوا ہے۔ احتجاج کا یہ لاعلاج رواج ہے کہ اب تو حجاج کے مزاج میں بھی طنز کا اِمتزاج ہے۔ اِن کے نزدیک تخفیف و تضحیک کرنا بالکل ٹھیک ہے۔ یہ جان نثار پُرستار دل کا غبار نکالتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ روزہ سے وزن تو کم ہو سکتا ہے مگر تن سازی نہیں ہو سکتی۔

شکست سے نامانوس یہ نفوس جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ملغوب ہونے لگے ہیں تو جلوس میں معکوس ردعمل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ جنہیں معکوس کا اصول نہیں پتہ اُن کے لیے جدید لباس اُس کا عکاس ہے، جس میں کپڑے اور ڈھکے ہوئے جسم کی مقدار ایک دوسرے کی معکوس ہے۔ ایسے مداح کو جراح کے بجائے شاید نکاح کی ضرورت ہے جو کہ مزاح میں بھی فلاح و اصلاح کو نہ سمجھ پائے۔

اگر نتائج موافق ہوں تو یہ ایسے گھوم جاتے ہیں جیسے دنیا روز گھومتی ہے۔ پھر تو یہ تعریف و توصیف کی تالیف و تصنیف میں قافیہ و ردیف کی بھی تفریق نہیں کرتے۔ یہ حضرات مفادات اورجذبات میں تضادات بھرے واقعات و جوابات کو بھی بَرات دے دیتے ہیں۔ اِن کی یہ تعاریف و توصیف بالکل ایسی ہی ہے جیسے کچھ لوگوں کے روزانہ میں ہفتہ اور اِتوار نہیں آتا۔ یہ ایسی بصارت ہے جیسے موسلادھار بارش میں رات کو بغیر وائیپر کے گاڑی چلانا۔ ایسے میں اُن کی حالت اُس ملازم سے کم نہیں جو سودا لانے پر کم تنخواہ میں بخوشی راضی ہو جاتا ہے۔

جیسے کسی بھی بین الاقوامی سفر میں مسافر سے زیادہ توجہ اُس کے پاسپورٹ کی ہوتی ہے، ایسے ہی بین الجماتی بحث میں استحقاق سے زیادہ اخلاق کی اہمیت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس، مگر یاد رہے کہ آپ کا دیس کسی کے لیے پردیس بھی ہے۔ ابن آدم کویہ بھرم ہے کہ سارے عالم کا تلاطم اُس کے دم قدم سے ہے مگر پھولوں کے درمیان سب سے پہلے اُسی بوٹی کو کاٹا جاتا ہے جو اپنا سر اُٹھاتی ہے۔

ذیشان امجد
Latest posts by ذیشان امجد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).