رکشہ سے ہیلی کاپٹر تک کا سفر براستہ پاک پتن شریف


1978 کا سال تھا پاکستانی کرکٹ ٹیم کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پریکٹس کر رہی تھی۔ انڈیا یا شاید آسٹریلیا سے سیریز چل رہی تھی۔ اس وقت آج کل کی طرح سیکیورٹی کے مسائل نہیں تھے اس لیے اسٹیڈیم میں داخلہ بہت آسان سی بات تھی۔ ہمارا اسکول اسٹیڈیم کے قریب تھا۔ دوپہر میں اسکول کے بعد اکثرہم لونڈے لپاڑے اپنے قومی کھلاڑیوں کو دیکھنے اوران سے آٹو گراف لینے پہنچ جایا کرتے تھے۔ اس فرصت اور فراغت کے دور میں یہ ایک بڑی اور بالکل مفت سہولت اور تفریح تھی اور اپنے قومی کھلاڑیوں کو اتنے قریب سے دیکھ کر واقعی بڑی خوشی بھی ہوتی تھی جو دوست اس بات سے واقف ہیں وہ ہماری اس بات کی تائید کریں گے۔

ایسے ہی دنوں میں کسی دن ہم چار پانچ دوست اسٹڈیم کی گھاس پر باؤنڈری لائن کے پاس بیٹھ کر سارے بڑے نامور کھلاڑیوں کو بھاگ دوڑ کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ظہیر عباس، جاوید میاں داد، مشتاق محمد و، سرفراز نواز وغیرہ۔ عمران خان بالکل ہمارے سامنے فیلڈنگ کررہے تھے کسی شاٹ پر بال عمران خان سے ذرا دور آیا اور وہ اس کو روکنےکے لیے بھاگے مگر بال باؤنڈری پار کرگیا۔
اپنے اسٹار کھلاڑیوں سے محبت اور احترام اپنی جگہ مگر ہلکی پھلکی فقرے بازی ضرور چلتی رہتی تھی مختلف کھلاڑیوں کے مختلف ردِ عمل ہوتے تھے کبھی مذاق کا جواب مذاق کبھی خاموشی کبھی صرف ہنس دینا یا پھرکبھی اچھے یا برے طریقے سے صرف دیکھنا شامل ہوتا تھا۔

خان صاحب ہمیشہ سے آج ہی کی طرح بہت اکھڑ مزاج اور غصہ ور آدمی ہیں۔ تو جب وہ بال کو روکنے کےلیے بھاگ رہے تو کسی نے بلند آواز سے فقرہ اچھالا کہ “ رکشہ کر لے رکشہ “ بس پھر کیا تھا لاڈلا جو اس وقت کپتان بھی نہیں تھا سخت غصہ میں آگیا اور پھران کی زبانِ دراز سے ہماری ماں بہنوں کی شان میں جس فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ ہوا وہ آج چالیس برس بعد بھی لفظ بہ لفظ یاد ہے کیوں کہ وہ کوئی لمباچوڑا پیراگراف نہیں تھا وہ توبس دو چار لفظ ہی تھے۔

آج تحریکِ انصاف کے جیالے اور متوالے جس دودھ سے دھلی اور شہد میں لپٹی صاف اور شفاف زبان درازی کے لیے مشہور ہیں وہ کہیں چرخِ کہن سے وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ تو اپنے روحِ رواں کے انداز و اطوار اور مزاج سے پروان چڑھی ہے اور پارٹی میں رواج پائی ہے اور یہ زبان اب ان کی شاندار پہچان ہے۔

ھم آج بھی اپنے تمام بد خواہوں کے بقول اپنی تمام تر کینہ پروری اور کپتان سے متعلق تنگ نظری کےان کی کرکٹ کے کھیل کی مہارتوں کے دل سے قائل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی خوش خیال اور خوش جمال لوگوں کے ساتھ جن کا بڑا حصہ صنفِ نازک سے تعلق رکھتا ہے سے محبت اور رغبت کی مہارت کے بھی قائل ہیں باوجود اس کے کہ وہ ریحام خان کے معاملے میں کافی رپٹ گئے پھر بھی ان دو مہارتوں کے کل بھی بادشاہ تھے اور آج بھی بادشاہ ہیں اور ہم آج بھی انہیں ان دو معاملات میں بادشاہ مانتے ہیں۔

رہ گئےریاست، سیاست اور حکومت کے معاملات تو بائیس سال کوچۂ سیاست میں بھاگ دوڑ کرنے اور بہت سارے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد بھی جو حال ہے اس کا تذکرہ کبھی کیا تھا اور اب گروہِ خبر نویساں کے روبرو اس کا اعتراف وہ بقلم خود کرچکے ہیں۔

در اصل یہ سارا قصۂ غم ان کے وکیلوں پر تبصرے اور تعارف ت کے لیے چھیڑا تھا جس کے لیے مجھے وہ رکشہ والا واقعہ بیان کرنا پڑا۔ کیوں کہ وکیل ہی سے رکشہ اور ہیلی کاپٹر کو ربط ملا ہے۔ جب وہ کرکٹر تھے توگیند پکڑنے کےلیے وہ رکشہ نہ کر سکےاور بال نہ پکڑ سکے البتہ عوام کو زحمت سے بچانے کے لیے انہوں نے ہیلی کاپٹر ضرور کرلیا ہے اور عوام کو زحمت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے واہ بہت خوب ویل ڈن سرکار۔

اور یہ اطلاع ہمیں ان کے وکیل خاص جناب محترم فواد چوھدری کے ذریعے ملی ہے جو تاویل ساز بہانہ باز فیکٹری جو وزارت اطلاعات ونشریات کے نام سے متعارف ہے کے وکیل یا وزیر قرار پائے ہیں۔ ان کے بے ڈھنگے وکیلوں میں یوں تو بڑے بڑے شاہکار اور پرانے فنکار شامل ہیں جیسے شیخ رشید بابر اعوان شاہ محمود قریشی وغیرہ مگر اپنے لب ولہجے اور تحقیر آمیز اسٹائل میں یہ فواد چوھدری اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کی شہرت سے زیادہ قریب ہیں شایدان جیسا دوسرا کوئی نہیں ہے جو جوانی ہی میں اور دوسرے بہت سارے “ ہیلی کاپٹرز “ کیسیز کی بھر پور وکالت فر ماچکے ہیں اسی لیے شاید بہت ساری زور آزمائی کے باوجود پنجاب کی بڑی وکالت نہیں پاسکے۔

لیکن جو وکیل پنجاب کے اعلیٰ منصب پر چھوڑا گیا وہ پاک پتن شریف کیس کے معاملے میں ہیلی کاپٹر فیم فواد چوھدری کے مقابلے سوا سیر ثابت ہوا اب خیر سے نئے پاکستان میں وزیر اعلیٰ ناکوں اور چوراہوں پر ہونے والی وارداتوں کا نوٹس بھی لیں گے اور بنفسِ نفیس کھڑے کھڑے مظلوموں کو فوری انصاف بھی فراھم کریں گے

اب جس کے ایسے منتخب اور نادرِروزگار وکیل اور دوست ہوں اس کے ساتھ آسمان بھی دشمنی کر کے کیا بگاڑ لے گا۔ جب نائب قاصد اور کلرک کی اہلیت رکھنے والے اعلیٰ اور اونچے مقام پر ٹھونسے اور ٹھوکے جائیں گے تو ایسے ہی منظرنظر آئیں گے جب منظر ایسا ہو گا تو ایسا ہی حال احوال بیان کیا جائے گا جو نظر آرہا ہے۔

ھم بھی کوئی آسمان سے نہیں اترے آپ سب کی طرح اسی معاشرے کے فرد ہیں اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں میڈیا سے تین مہینوں کی مہلت مانگی جارہی ہے ٹھیک ہے جناب تین مہینے تو کیا آ پ خیر سے پورے پانچ سال ہمارے سینے پر اپنی پوری طاقت سےمونگ دلتے رہیں ہم اف بھی نہیں کریں گے یہ تاب یہ طاقت یہ مجال کہاں ہمیں مگر حضور یہ جو عثمان بزدار اور فواد چوھدری بے قراریاں اور بد حواسیاں دکھا رہے ہیں پاک پتن شریف اور ہیلی کاپٹر کی بڑی سینما اسکوپ اسکرین پر تو کیا ہم ان کو بیان بھی نہ کریں۔

صرف دو ہفتے ہوئے ہیں اور دو بڑی خبریں۔ اور آپ کی خبری اور بے خبری کا یہ عالم کہ آپ کو سپریم کورٹ کی تازہ صورتِ حال کا بھی کوئی علم نہیں یہ عالم شوق کا ہم سے تو نہ دیکھا جائے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر موج مستی میں گزاری ہے تو اس پینسٹھ سالہ جوانی میں اپنے اوپر نظر رکھنا مشکل کام ہے مگر ان اناڑی کھلاڑیوں پر آپ نظر رکھ سکتے ہیں اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے اب جیسی بھی ہے ہم تو بس نیک وبد قبلۂ عالم کو بتانے کی کوشش کررہے ہیں اور بس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).