عاطف میاں کی تقرری اور خطرے میں پڑتا اسلام


فلاں بندہ احمدی ہے۔ ہمارے ملک میں اب یہ محض ایک لفظ نہیں، ایک ایسا بم شیل ہے جس کا پتا چلتے ہی اکثریت کے چہرے لال ہو جاتے ہیں، منہ سے کف جاری ہو جاتا ہے، اور بلا جھجھک احمدیوں کے چھوٹے بڑوں کے لئے مغلظات کا سیل رواں شروع ہو جاتا ہے۔ سب اہل ایمان اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اپنے لئے باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ اور اگر کسی طرح سے ان کی ٹھکائی کا کوئی موقع ہاتھ آ جائے تو اس طرح کے جہاد سے کوئی پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کرتا۔ بلکہ ان کی کوئی ایک آدھ بچی کچھی عبادت گاہ جلا دینا یا گرا دینا تو ویسے ہی وجہ نجات اور باعث بلندی درجات سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ اب اپنے وطن میں اسلام کے کئی طرح کے برانڈ موجود ہیں۔ لیکن اس طرح کے معاملات پر سب کی دال روٹی خوب چلتی ہے۔

ویسے بھی کسی بھی مسئلے یا معاملے پر کبھی اتفاق رائے نہ کرنے والے مختلف رنگ اور وضع قطع کے جبہ و دستار کے حامل اہل ایمان دسترخوان پر اکثر اکٹھے ہو ہی جاتے ہیں۔ بندہ اگر احمدی ہے تو پھر اس کی قابلیت ایمانداری اور شہرت ثانوی چیزیں ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور واحد پاکستانی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے قابل احترام لوگ بھی ہمیشہ ان لوگوں کے بھالے پر رہے اور نفرت کے قابل سمجھے گئے۔

یا منافقت تیرا آسرا۔ ہم چھوٹے سے شہر جھنگ میں رہتے تھے۔ تو وہاں یہی دیکھا کہ ذاتی زندگی میں بات بات پر احمدیوں کو گالیاں دینے والوں کا عمل ان کے کہے سے ہمیشہ الٹ ہی ہوتا تھا۔ اگر ان کے کسی اپنے کو دل کی کوئی بیماری لاحق ہوتی تھی، تو اچھے بھلے مذہبی لوگ اپنے مریضوں کو ربوہ لے جاتے۔ کیونکہ وہاں کے امراض دل کے احمدی ڈاکٹر صاحب بہت قابل، ہمدرد اور اپنے پیشے میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ شیزان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی پابندی سےتاکید کرنے والے مولوی صاحب اپنی موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے لئے ہمیشہ اسی واحد پیٹرول پمپ پر جاتے جو کہ قادیانیوں کی ملکیت تھا۔ اور اگر ان سے ان کے اس عمل کی وجہ پوچھی جاتی تو فرماتے یہاں کا پیمانہ درست ہے۔ پیٹرول ہمیشہ پورا دیتے ہیں۔

میری تحریر کا مقصد کسی ایک کمیونٹی کی حمایت نہیں۔ مگر اقلیتوں اور خصوصاً احمدیوں کو لے کر ان کے بارے کیا ہمارا رویہ درست ہے۔ جب ایک بار آئین میں ترمیم کر کے سرکاری طور پر ان کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے، تو اس کے بعد بات ختم نہیں ہو جانی چاہیے؟
پھر بار بار ان کی وجہ سے ہمارا اسلام خطرے میں کیوں پڑ جاتا ہے۔

بطور مذہبی اقلیت ان کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری اب ریاست اور اکثریتی مسلمانوں پر واجب ہے۔ میں نے اپنے شہر میں ان کی کئی عبادت گاہیں دیکھی ہیں، جن پر قبضہ کر کے ان کو اپنی مساجد میں بدل دیا گیا ہے۔ اور جو کچھ باقی رہ گئی ہیں ان پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ آئین پاکستان چند کلیدی عہدوں کو چھوڑ کر باقی سب جگہوں پر پاکستان کے سب شہریوں کو کام کرنے کا برابر حق دیتا ہے۔ وزیراعظم جناب عمران خان نے جناب عاطف میاں کو ان کی اپنے کام میں قابلیت کی وجہ سے اپنا معاشی مشیر مقرر کیا ہے۔ تو ان کے احمدی ہونے کو لے کر طوفان اٹھایا جا رہا ہے۔ بھانت بھانت کے صالحین اور مجاہدین اپنی اپنی تلواریں سونت کر ان پر حملہ آور ہیں۔

بڑی سیاسی پارٹیوں مثلاً نون لیگ نے اس نیک کام کے لئے کیپٹن صفدر کو رکھا ہوا تھا، تو بظاہر سیکولر نظریات کی حامل سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی کیسے پیچھے رہتی۔ ان کی ایک اہم رہنما شہلا رضا نے اس معاملے پر ایک ٹویٹ داغ کر شہیدوں میں نام لکھوا لیا ہے۔ اگرچہ ردعمل سامنے آنے کے بعد معذرت کر لی۔ مذہبی پارٹیوں کے لئے تو ویسے ہی لوگوں کے ووٹ بٹورنے کے لئے یہ ہاٹ ایشو ہے۔ ملکی سیاسی منظر نامے میں نووارد نئی نئی گالیوں کے خالق مولانا خادم رضوی صاحب تو پچیس لاکھ لوگوں کو کامیابی سے یہ منجن بیچ چکے ہیں۔

اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو اسلام کو جتنا خطرہ ہم نام نہاد مسلمانوں سے ہے اتنا احمدیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور یہودیوں سے نہیں۔ کیا ہم لوگ اسلام کے نام پر تہمت نہیں؟ کون سی برائی ہے جو ہم نے چھوڑی ہے۔ چوری، رشوت خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، بدنظری، دوسروں کا حق مارنا، ناجائز قبضے، بیٹیوں کو جائیدادوں میں حصہ تک نہیں دیتے۔ قبرستانوں کی زمینیں تک ہم سے محفوظ نہیں۔ اپنے گھر کا کوڑا اور غلاظت دوسرے کے گھر کے آگے ڈھیر کر آتے ہیں۔ بات بات پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں ہم سے محفوظ نہیں۔ مساجد سے جوتیاں تک اٹھا لینے والے کس منہ سے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ اور دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔

ہمارے علماء کرام کیوں عام لوگوں کی کردار سازی پر زور نہیں دیتے، اور ان مسائل میں لوگوں کو الجھائے رکھتے ہیں۔ یہی ناروا سلوک جب پڑوسی ملک بھارت میں اکثریتی ہندو لوگ اقلیتی مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ تو ہم لوگ خوب شور مچاتے ہیں۔ تو ایک چیز اگر وہاں بری ہے تو یہاں اچھی کیسے ہو جاتی ہے۔ خدارا انسان کو انسان سمجھیں ہر بات میں مذہب کو لے کر آنا کہاں کی دانائی ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کو قوم نے منتخب کیا ہے۔ ان کے مینڈییٹ کا احترام کیجیے۔ ان کو کام کرنے کا موقع دیجیے۔ ان کا حق ہے یہ بلا تفریق قوم و مذہب اپنے اپنے شعبوں میں قابلیت کی بنیاد پر اچھے لوگوں کو لے کر آئیں۔ اور ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ یقین رکھیے یہ احمدی اس مومن اور صالح سے اچھا ثابت ہو گا، جو جالی دار ٹوپیاں پہن کر آج کل لندن کی سڑکوں پر گھومتا ہوا پایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).