میرے ماموں لالک جان شہید (نشان حیدر)



1999 بالعموم پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان کے لئے ایک ناخوشگوار سال تھا۔ اس سال گلگت بلتستان میں موسم بہار، خزاں کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ کارگل کی جنگ چھڑ گئی تھی اور دھرتی ماں کے بچے اپنی ذمہ داری سرانجام دیتے ہوۓ شہادت کا رتبہ پا رہے تھے. مئی سے لے کر اگست تک کا عرصہ سخت گراں گزرا۔ علاقے میں غمگین سماں تھا ۔ مائیں اپنے جگر گوشوں کی خیریت کی خبر سںنے کے لئے دیوانہ وار منتظر تھیں، باپ اپنے لخت جگر کے خطوط ڈھونڈnے یا تو کسی ڈاک خانے کا رخ کرتے تھے یا کسی مرکزی بازار میں ہمہ وقت موجود رہتے۔ بہنیں اور بھائی اپنے بھائیوں کے لئے دعائیں مانگتے نہیں تھکتے۔ بیویاں اپنے شوہروں کی آمد کے لئے بیتاب تھیں۔ ضلع غذر بالخصوص وادی یاسین میں ان دنوں مواصلات کا کوئی خاص ذریعہ نہیں تھا ۔افواoیں پھیل رہی تھیں اور کسی چھوٹے سے ہجوم کو دیکھ کر بھی لوگ خوفزدہ ہو رہے تھے کہ کہیں کوئی بُری خبر ان کی طرف نہ آئے ۔ مئی کے آخر سے اگست کے پہلے ہفتے تک ہماری دھرتی کے جوان اپنے وطن کی خاطر جان نچھاور کرتے گئے ۔

جو مائیں اور بہنیں اس مشکل مرحلے سے گزر رہی تھیں، ان میں ایک، میری ماں بھی تھی جن کے تایا زاد بھائی ابراہیم خان کارگل میں شہید ہوۓ تھے اور انہی کے یونٹ میں میری امی کا چھوٹا بھائی لالک جان بھی موجود تھا۔ اس دوران میں نے اپنی ماں کو ہمہ وقت پریشانی کی حالت میں دیکھا۔ جب بھی میں نے ماں کی پریشانی کی وجہ دریافت کی تو یا تو ماں نے میری بات ٹال دی یا مجھے یہ بتایا کہ آپ کا ماموں لالک جان اور آپ کا تایا زاد بھائی ولی خان کارگل میں ہیں اور ان کا کوئی خط نہیں آیا ، آپ بھی ان کی خیریت کے لئے دعا کرو۔ بچپن کے دن تھے ، لااُبالی طبیعت تھی ، کبھی دُعا کی اور کبھی ان تمام آرمی کی گاڑیوں کو دیکھنے کے لئے بھاگے جن میں ہمارے پیارے شہدا کے اجسادِ خاکی لائے جارہے تھے۔

چاند اُس رات بھی نکلا تھا مگر اُس کا وجود
اتنا خون رنگ تھا، جیسے کسی معصوم کی لاش

7 جولائی کا دن تھا ۔ کرگل کے پہاڑ، بلند ٹائیگرہل اور اُس پر موجود ایک پوسٹ پر لالک جان شہید تن و تنہا موجود تھے۔ اُن کے دیگر ساتھی اور دوست شہید ہوۓ تھے۔ گولہ بارود اور بھاری اسلحہ کی آوازیں وادی کارگل میں گونج رہی تھیں۔ اپنی ڈیوٹی کو بخوبی سرانجام دینے تک انہوں نے واپس مڑنے کو اہمیت نہ دی۔ پاکستان آرمی کے بقول انہوں نے سینکڑوں دشمنوں کو شکستِ فاش سے دو چار کر دیا۔ ایک تنہا بہادر سپوت نے اپنے مخالفین کو حیران و پریشان رکھا تھا۔ دو سے تین دنوں تک مسلسل حملوں کے باوجود بھی لالک جان کے پوسٹ پر قبضہ کرنا مخالف فوج کے لئے ممکن نہ تھا۔ آخرکار بھاری اسلحہ اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بھارتی فوج نے گلگت بلتستان کے ان سپوت کو شہید کر دیا اور تب تک وہ بہادری کےانمٹ داستان رقم کر چکےتھے۔ حکومت پاکستان نے اُن کی بہادری کے اعتراف میں انہیں نشانِ حیدر کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا۔

کارگل کے اس عظیم ہیرو لالک جان شہید نے 19 فروری 1967 کو وادی یاسین کے دورافتادہ گاؤں ہندور مورنگ میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک کی تعلیم گاؤں سے حاصل کی اور اُس کے بعد اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے لگے۔ میری امی کہتی ہیں کہ اُن کے چھوٹے بھائی لالک جان پڑھائی میں بھی خوب دلچسپی رکھتے تھے اور خود جو کچھ سکول میں پڑھتے، واپس آکر اپنی بہنوں کو بھی پڑھاتے تھے۔ مگر محدود وسائل کی بنا پر انہوں نے سکول ترک کر دیا اور کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنے میں والدین کی مدد شروع کی۔بعد ازاں فوج میں انہوں نے میٹرک اور ایف اے تک کی تعلیم حاصل کی۔ لالک جان شہید کے تایا کھرور خان نے 1948 کی جنگ میں اور چچا پنین جان نے 65 اور 71 کی جنگوں حصہ لیا تھا۔ اُن کے مُنہ سے فوجی زندگی کی کہانیاں سُنتے سُنتے ایک دن وہ بونجی گلگت پہنچے اور فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 1985 سے 1999 تک اُنہوں نے سپاہی سے حوالدار کے عہدے تک ترقی پائی اور کرگل کی پہاڑی کو اپنی عسکری ڈیوٹی کی آخری جگہ بنا لی اور شہادت کے بعد پاکستان کا سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز اپنے نام کر لیا۔

لالک جان شہید کی بیٹیاں ، روبینہ اور آمنہ

سماجی خدمت، انسان دوستی، اور رشتہ داروں کا خاص خیال رکھنے کی نسبت انہوں نے اپنے گاؤں اور رشتہ داروں کے سامنے خوب عزت کمائی۔ ہر دلعزیز شخصیت بننے میں اُن کی اپنی محنت شامل تھی۔ وہ جب بھی گھر آتے میرے تایا کے چہرے پرخوشی نظر آتی، تایا اپنے سٹاک میں موجود سب سے خاص مرغا زبح کرتے اور اُن کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے۔ سب رشتہ دار اُن سے قصے کہانیاں سُنتے۔ مجھے املاء سکھانے اور پڑھائی میں حوصلہ افزائی کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ جب وہ اپنی آخری ملاقات کے لئے آئے تو اُس وقت میں چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا۔ ہمیشہ کی طرح اُس بار بھی اُنہوں نے بہتر پڑھائی کرنے پر زور دیا۔

اپنے گاؤں ہندور میں انہوں نے اپنے دیگر ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر المدد ویلفیر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تھی جہاں غریب لوگوں کی مدد کی جاتی تھی۔ اسی طرح ہائی سکول ہندور کے طلبہ کے ساتھ مل کر انہوں نے علاقے میں ڈاکخانے کی سہولت کے لئے کام کیا۔

وہ اپنے علاقے کےلئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر محدود وسائل کی وجہ سے اُن کے خواب پورا نہیں ہو رہے تھے، لیکن جذبہ جوان تھا اور عزم مضبوط کہ انہوں نے اپنی ڈیوٹی بہتر سر انجام دیتے ہوۓ فوج کا اعلیٰ اعزاز اپنے نام کر لیا اور جس کے بعد علاقے میں بہت حد تک ترقیاتی کام ہوئے۔ گا ہکوچ تا ہندور پکی سڑک بنی، سکول اور کالجز بنے، علاقے میں متعدد فری میڈیکل کمیپ منعقد ہوئے اور یوں تعلیم، صحت اور مواصلات کے نظام کی بہتری کے لئے لالک جان شہید کی بہادری کے اعتراف میں کافی حد تک کام ہوا۔ سماجی خدمت کے جذبے سے سرشارلالک جان شہید اپنے آبائی گاؤں ہندور میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ اُن کی آخری آرام گاہ دیکھنے اور اُن کے مزار پر دُعا کرنے اور اُن کی بہادری کو سلام کرنے کے لوگ ملک کے کونے کونوں سے ہندور یاسین تشریف لاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).