گھر والی نہیں۔ ۔ ۔ گھر بنانے والی


گھر والی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک ایسی عورت کا خیال آتا ہے جو کچھ نہیں کرتی۔ جس کے ساتھ نرمی اور احترام سے پیش آئیں تو وہ سر پہ سوار ہو جائے گی اس لیے جہاں تک ممکن ہو اسے دبا کے رکھا جائے تاکہ مردانگی اور انا کی تسکین بھی ہوتی رہے اور گھر والی بھی کنٹرول میں رہے۔ یوں تو ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر خواتین کو بے جا پابندی اور سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تنگ نظری اور اپنی اجارہ داری سمجھنے والی سوچ معاشرے میں راسخ ہے اور یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے عورت پر ظلم ہوتا ہے چاہے وہ جسمانی تشدد ہو یا ذہنی اذیت۔

عورت خواہ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کسی نہ کسی طور سے اس کا شکار ہوتی ہیں، ان پر رعب جھاڑنا، ان کی بات نہ سننا اور بلاوجہ روک ٹوک کرنا یہ سب بہت عام ہے۔ مگر اس رویے کا سب سے زیادہ شکار گھر والی ہوتی ہے کیوں کہ اسے محکوم سمجھا جاتا ہےاور اسے دبا کر رکھنے کو مردانگی مانا جاتا ہے۔ اسے اپنی مرضی سے کچھ کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ شوہر کی اطاعت کرنا اس کا فرض ہے۔ افسوس کہ اطاعت کو غلامی سمجھ لیا گیا اور حقوق پورے کرنے کے حکم کو یکسر فراموش کردیا گیا۔

کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں خواتین مارپیٹ کا شکار تو نہیں مگر شدید ذہنی اذیت میں ضرور مبتلا ہیں کیونکہ وہ طعن و تشنیع کا شکار رہتی ہیں۔ یہ طنز اور طعنے ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مکمل تباہ کردیتے ہیں۔ نوکری پیشہ خواتین کچھ حد تک خود مختار ہیں اور ان کی حالت قدرے بہتر ہے اگرچہ نوکری پیشہ خواتین کے بھی کئی مسائل ہیں مگر فی الحال وہ زیر بحث نہیں، یہاں میں خصوصی طور پر ہاؤس وائف کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ عمومی رائے کے مطابق وہ کچھ نہیں کرتی، وہ سارا دن مزے سے گھر میں رہتی ہے اور آرام کرتی ہے کیونکہ اس کے پاس کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ گھر سنبھالنا، گھر کے سارے کام کرنا، گھر والوں کا خیال رکھنا اور بچوں کی پرورش کرنا یہ بھی بھلا کوئی کام ہے؟

اس بات کا احساس اس کو بار بار دلایا جاتا ہے کہ تم کرتی ہی کیا ہو؟ اور وہ سب کام جو وہ انجام دے رہی ہوتی ہے اس میں ڈھونڈ ڈھونڈ کے خامیاں نکالی جاتی ہیں اور پرزور انداز میں جتائی جاتی ہیں، کہیں کوئی کسر نہ رہ جائے ناں ورنہ اپنے برتر ہونے پر فخر کیسے کریں گے؟ کچھ مرد یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی ہونے والی بیوی زیادہ پڑھی لکھی نہ ہو تاکہ کسی بات پر کسی قسم کا ردعمل نہ دے سکے، مگر پھر بعد میں وہ انہیں تعلیم کی کمی کا طعنہ دیتے ہیں، کم پڑھی لکھی خواتین تمام عمر یہی سہتی ہیں کہ وہ کسی قابل نہیں ہیں اور وہ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہیں۔

اعلی تعلیم یافتہ خواتین یا وہ جو شادی سے پہلے نوکری کرتی تھیں اور اپنے گھر اور بچوں کے لئے اپنا کیریئر چھوڑ دیتی ہیں مزید مشکل میں ہیں کیونکہ ان کی قابلیت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مرد انہیں اپنا مدمقابل سمجھنے لگ جاتا ہے اور اسے کچلنے کا ہر حربہ استعمال کرتا ہے جس میں سب سے کارگر حربہ عورت کی عزت نفس مجروح کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ خود کو طاقتور اور برتر سمجھتا ہے اور عورت شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ مرد کو اپنے ارفع ہونے کا خیال اس لیے بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ کماتا ہے اور گھر اور گھر والی پر خرچ کرتے وقت اس کو اس بات کاشدید احساس بھی دلاتا ہے حالانکہ یہ اس کا فرض ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ اپنی بیوی کو عزت دے، اسے ماتحت اور محکوم نہیں بلکہ اپنی ساتھی کی حیثیت دے اور اسے دوست سمجھے۔ گھر والی تلخی اور سختی نہیں بلکہ نرمی اور محبت کی حقدار ہے، تعریف اور توجہ کی مستحق ہے۔ کوئی غلطی ہوجائے تو اسے درگزر کرنا چاہیے، کوئی بات یا عادت پسند نہ بھی ہو تو اچھائیوں پہ نظر کرنی چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے، میری چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھتی ہے، میری اولاد کی پرورش کر رہی ہے، میرا گھر سنبھال رہی ہے، اس کے ہونے سے میری زندگی میں آرام اور سکون ہے یہ محض گھر والی نہیں ہے بلکہ یہ تو گھر بنانے والی ہے۔ گھر بنانے والی کو اس کا جائز مقام مل جائے، گھر تو جنت بننا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).