ٹھنڈا کر کے کھائیے



پرانے وقتوں میں جب بھی کچھ گرم کھا لیتے اور خاص طور پہ حلوہ اور تالو میں اٹکانا مشکل ہو جاتا اور ہکلاتے ہاتھ جھٹکتے یا تو باہر اُگل دیتے یا حلق سے نگلنے میں بھی جو دقت ہوتی وہ چہرے پہ عیاں ہو جاتی تو بڑے بوڑھے اکثر اوقات چپل دے مارتے اور ساتھ ہی یہ نصیحت کرنا نہ بھولتے کہ “ٹھنڈا کر کے کھاؤ” یعنی اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ اور اکثر جلدی بھی ایسی ہوتی تھی کہ بتانے پہ دو ہتھڑ (ہاتھ) مزید جڑ دیے جاتے تھے۔ اب حلوہ تو خصوصی طور پر چند مخصوص افراد کے ساتھ جوڑ دیا گیا کہ عام انسان حلوہ کھا ہی نہیں سکتا جیسے، اسی لیے شاید یہ ضرب المثل بھی زباں زدِ عام شاید اِسی لیے ہوئی کہ “سوجی اتنی سستی ہو جائے تو ہر کوئی حلوہ پکائے” یہ ضرب المثل ویسے تو باطنی معنی کچھ اور رکھتی ہے لیکن ہم اس کو ظاہری معنی میں حلوے کے لیے ہی سمجھ لیتے ہیں۔ جوتے ، چھڑیاں کھاتے، ٹھنڈا کر کے کھانے کی نصیحتیں سنتے نسلیں پروان چڑھتی رہیں۔ لیکن موجودہ معروضی حالات میں یہی نصیحت شاید قومی سطح پہ بھی بھی ضروری ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی بائیس سالہ جہدو جہد کا ثمر اقتدار کی صورت میں ملا، مبارکبادیں، خوشیاں اُن کا حق، بے شک۔ لیکن اس کے ساتھ کہیں مسائل نے بھی جنم لیا۔ اگر تو حکومتی اراکین میں نوجوانوں کی بھرمار ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انہیں شک کا فائدہ کرکٹ کی طرح ہی دیا جا سکتا ہے۔ لیکن کم سے کم نوجوان بھی کابینہ میں شاید 45 کا ہندسہ عبور کر چکا ہے۔ تو یہ کہنا عبث ہے کہ کابینہ عقل نہیں رکھتی، سمجھ بوجھ نہیں رکھتی، یا پھر اُن کو سمجھ نہیں آ رہی۔ پچھلے چند دنوں کے حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ شاید پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جلدی جلدی حلوہ کھانے کے چکر میں زبان جلا رہی ہے۔ ہماری کیا اوقات کہ بھئی کچھ کہیں، لیکن جو حالات جا رہے ہیں، کوئی نہ کوئی کہے گا ضرور کہ سرکار”ٹھنڈا کر کے کھائیے” کیوں کہ ایسا نہ کہنے سے معاملات دن بدن بگاڑ کی طرف ہی جا رہے ہیں، سوشل میڈیا سند ہے۔

اقتدار شاید اتنی کوششوں سے ملا ہے، اور اس قدر مغز کھپائی کے بعد کرسی اقتدار ملی کہ تحریک انصاف کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ گنجی کھائے کیا اور نچوڑے کیا۔ بلنڈر پہ بلنڈر۔ امریکہ کا پیغام کس بھونڈے انداز میں پیش کیا گیا، اُس پہ امریکہ کا موقف پہ ڈٹ جانا، بھارت کے حوالے سے غیر یقینی کی صورت حال، شاہ جی آپ تو تجربہ کار کھلاڑی ہیں، حلوہ میسر آ گیا ہے ، اتنی جلدی کاہے کی ہے، ذرا حوصلہ بادشاہو، ٹھنڈا کر کے کھائیے، اور اپنے ساتھیوں کو بھی مشورہ دیجیے، کہ بھائیو اقتدار کا ہما سر بیٹھ گیا، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ پورا نظام ایک دن میں تبدیل ہو جائے۔ تو کچھ معاملات پرانے انداز سے چلنے دیجیے، کچھ نئے کیجیے تا کہ زبان بھی نہ جلے اور نگلا بھی جائے۔ سونے پہ سہاگہ بزداری غربت کا پول جہاز نے کھول دیا۔ بجلی نہیں ہے، ہم کو یقین ہے۔ لیکن یہ جہاز بھی ویسے کھلونا جہاز نہیں تھا۔ اس پہ مستزاد سلیفیاں بھی۔ بلے او شیرو۔ کوئی شک نہیں کہ بزدار صاحب کے اختیارات “بے پناہ” ہیں۔ لیکن جناب تھوڑا ٹھنڈا کر کے کھائیے، یہ دعوے نہ کرتے اگر کر دیے تو حوصلہ کیجیے، جہاز ادھر ہی ہے، کیوں تماشا بنواتے ہیں۔ مانیکاجی کا حق تو تھا، اور ہو سکتا ہے غلطی گوندل صاحب کی ہی ہو۔ لیکن موجودہ حکومت نے جس بھونڈے انداز سے اس معاملے کو “ہینڈل” کیا کوئی شک نہیں کہ حلوہ گرم گرم کھانے کی ہی جلدی ہے۔ مک ہی نا جاوے۔

نہ جانے نئی حکومت کو جلدی کس بات کی ہے کہ ہر نئے دن نیا قضیہ لے بیٹھتی ہے۔ بھئی وزیر اعظم صاحب کا ہیلی کاپٹر کا خرچہ اگر چند سو روپے ہے تو پھر بند کیجیے میٹرو، اور یہ روٹ کی بسیں اور ہیلی سروس عام کر دیجیے، ہم بھی تو مستفید ہوں ملکی خزانے کی بچت میں۔ اور حد دیکھیے نہ جانے کس کم عقل نے کہہ دیا کہ غلطی مان لینا بڑا پن ہوتا ہے، مانی پہلے والوں نے بھی نہیں، توجیحات آپ بھی چند دن میں ہی پیش کرنے لگے تو بدلا کیا ہے؟ آپ میں اور اُن میں فرق کیا رہ گیا ؟سب سے زیادہ افسوس شیخ صاحب پہ ہوا ۔ چند دن پہلے نان چھولے ریڑھی پہ کھڑے کھاتے پائے گئے اورآج موٹر سائیکل اٹھا پھینکوا رہے ہیں؟ جس نے راجہ بازار، موتی بازار، لال حویلی کا علاقہ دیکھا ہو گواہ ہووئے کہ کئی دہائیوں سے وہاں ایسے ہی کاروبار ہو رہا ہے۔ کہ سڑک پہ بندہ بھی مشکل سے سفر کرئے۔ اور شیخ صاحب اس کو علاقے کی روایت شمار کرتے تھے کہ گھر سے باہر نکلتے ہی ریڑھی والا، فلاں فلاں ملتے ۔ تو اب کیا اعتراض ؟ گاڑی پہ ہوٹر لگ گیا ہے اس لیے؟ رہی سہی کسر کراچی سے ڈاکٹر (؟)عامر لیاقت حسین صاحب نے پوری کر دی۔ نظر انداز کرنے پہ۔

بھنڈ پہ بھنڈ وج رہے ہیں سوہنڑیو، تھوڑا ٹھنڈا کر کے کھائیے، حکومت اپنی مرضی سے کیجیے مگر تھوڑا حوصلہ ، تبدیلی کی گاڑی کی ٹینکی ایسے اپنے بے تکے معاملات سے لیک نہ کیجیے، کہ منزل دور لگنے لگے۔ دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن جس تعداد میں چند دن کے یہ معاملات ہیں۔ بس اتنا مشورہ ہے کہ “تھوڑا ٹھنڈا کر کے کھائیے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).