عمران خان کی مدافعت میں


\"yashaabجیسے ایک زمانے میں بے ذوق لیکن دولت مندوں کے ہاں اقبال، فیض احمد فیض اورچند دوسرے بڑے شاعروں کی کتابیں اپنے ڈرائنگ رومز کے شو کیس کی زینت بنانا ایک فیشن بن گیا تھا اسی طرح آج کل تحریک  انصاف کے رہنما عمران خان کو گالی دینا ایک فیشن ہے۔ فرق یہ ہے کہ شاعروں کی کتابیں گھر وں میں رکھنے سے مقصد اور مطلب اپنے آپ کومہذب ثابت کرنا تھا لیکن عمران خان کو گالی دینے سے موجودہ حکمران بھی خوش ہوتے ہیں اور کوئی بہتری کی سبیل بھی نکل سکتی ہے۔ ویسے تو مسلم لیگ نون کی حکومت نے خود اپنے بڑے گھر ، وزیر ِ اعظم ہاؤس میں ایک سیل اس خاص مقصد کے لئے قائم کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی جب تک بعض لوگوں کی پہنچ اس گھرتک نہیں ہوجاتی وہ یہاں وہاں عمران خاں کے خلاف لکھ کر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید اسی طرح و ہ حکومتی پیاروں میں شامل ہو جائیں۔ گویا

 ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اور یوں اب آبروئے شیوہ اہلِ ہنرداؤ پر لگی ہے۔ بلکہ بعض اوقات کو تو پنجابی محاورے کی طرح یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ آ ٓٹا گوندھتے ہوئے ہلتے کیوں ہو۔ ؟اس وقت پاکستان کے بلا شبہ مقبول ترین سیاسی رہنماعمران خان اگرکسی بات یا ایشوپر اکیلے کھڑے ہو جائیں تو مصیبت ،کہ یہ آدمی دوسروں کے ساتھ نہیں چل سکتے اور اگروہ دوسروں کو ساتھ ملا لیں تومشکل کہ دوسروں کے کہے میں آ کر ان کے ساتھ چلے گئے یعنی عمران کی کوئی بھی حرکت قابل ِ معافی نہیں جائے۔۔۔ جائے ماند ن نہ پائے رفتن !

 عمران خا ن خود کوئی فرشتہ ہیں اور نہ تحریک انصاف کے کارکن ہی فرشتے ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان فرشتوں کا نہیں انسانوں کا ملک ہے اور یہاں انسان ہی بستے ہیں۔ اس لئے ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ فرشتوں جیسے پاک صاف ہوں گے غلط ہے۔ فرق ہے توصرف اتنا ہے کہ عمران خان، موجودہ پاکستانی لیڈرشپ میں سب سے بہترچوائس ہیں۔ ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں، وہ انتھک ہیں اور ان کی زندگی سب کے سامنے ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان پہلی مرتبہ ون ڈے کرکٹ کا چمپئین بنا اور اس کے علاوہ انھوں نے دوسرے لوگوں کی مدد سے ایک قابل فخر ادارہ ،شوکت خانم کینسر ہسپتا ل کے نام سے قائم کیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان پاکستان سے باہر تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہیں کہ مغرب کے لیڈروں کے ساتھ ، ان سے مرعوب ہوئے بغیر، ان کی زبان میں بات کر سکتے ہیں ورنہ ہمارے اکثر لیڈر تو کاغذوں کے پرزے ہی سنبھالتے رہ جاتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت مسلم لیگ نون ہو یا پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی ہو یا متحدہ قومی موومنٹ یا کوئی بھی اور پارٹی، ان کے لیڈران پر کئی طرح کے الزامات لگے ہوئے ہیں صرف جماعت اسلامی یا تحریک ِ انصاف کی قیادت ہے جو ان الزامات سے محفوظ ہیں۔

ہاں، عمران خان سے بعض سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں اور عمران خان نے یقیناً ان غلطیوں سے سبق بھی حاصل کئے ہوں گے کیونکہ اگر کوئی غلطی نہیں کرے گا تو آگے کیسے چلے گا؟ ویسے بھی کس سیاست دان نے اپنے سیاسی کیریئر میں کوئی غلطی نہیں کی؟ ہمارے ہاں تو سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے پہاڑ جیسی غلطیاں کی ہیں ۔ ویسے بھی تحریک ِ انصاف کو تو ابھی خیبر پختونخواہ میں حکومت میں آئے تھوڑا عرصہ ہی گزرا ہے اور انھوں نے ابھی تک ایسی کوئی خرابی نہیں کی کہ انھیں موردِ الزامت ٹھہرایا جائے ۔ ہاں اس صوبے میں یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ یہاں پولیس کوسیاسی اثرات سے پاک کیا گیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پولیس نے ایک سیاسی قتل کے ملزمان کو چوبیس گھنٹے میں گرفتار کر لیا۔ جب کہ دوسرے صوبوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ممکن ہے یہ تبدیلی کچھ لوگوں کو نظر نہ آتی ہوکیونکہ و ہ یا تو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں یا تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتے ۔

دراصل عمران خان کامسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں تبدیلی کا نقیب ہے اورتبدیلی کو پاکستان کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔ وہ تبدیلی ہے کیا؟ ہمارے ہاں موروثی سیاست کا راج ہے۔ سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ پرائیویت لیمیٹڈ کمپنیاں ہیں اور ان کے مالک میجر شیئر ہولڈر ہی ہو سکتے ہیں اور وہ لوگ جو اس پارٹی میں اپنا خون پسینہ دیتے ہیں وہ آُخری وقت تک خون پسینہ ہی دیتے رہ جاتے ہیں اور مالکان ذاتی فوائد اٹھاتے رہتے ہیں۔ حیرت ہی نہیں نہایت افسوس کی بات بھی ہے کہ سندھ اور پیجاب میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی نام نہاد سیاسی پارٹیاں لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی فراہم نہ کر سکیں۔ عام لوگوں کے علاج معالجے کے لئے تو مناسب سہولتوں کا فقدان ہے لیکن بڑے لوگوں کے اپنے علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جا کر حکومتی خرچے پر علاج کرانے کی سہولت موجود ہے۔ صحرائے تھر میں سیکڑوں بچے بڑے بھوک پیاس سے مر جاتے ہیں لیکن حکمران صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے کچھ نہیں کرتے۔ یہ چند اور ایسی بہت سی دوسری وجوہات کی بنا پر عمراں خان کو تبدیلی کے نعرے کو بنیاد بنا کر لوگوں کو متحرک کرنا پڑ رہا ہے اور بلا شبہ لوگ بھی اس کی آواز پر لببیک کہہ رہے ہیں۔

ایک اور الزام جو تواتر کے ساتھ عمران خان پر لگایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کہ عمران خان نان ایشو کو ایشو بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ حکومتیں حالات کو خود اس نہج پر لے جاتی ہیں کہ عوام کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا اور عمران خان لوگوں کی آواز میں آواز ملا کر ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہے۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کس سیاسی پارٹی نے نہیں کی؟ تمام پارٹیوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن اس دھاندلی کا حوالے سے نہ تو کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی کسی کو سزا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ بھی دھاند لی کی جا سکتی ہے کیونکہ اس پر سزا نہیں۔ عمران خان نے بات صرف چار حلقوں کی انکوائری سے شروع کی لیکن بات بہت بہت دور، دھرنے تک چلی گئی اورآخر ِ کار حکومت کو وہی کام کرنا پڑا جوبہت پہلے بھی کیا جا سکتا تھا۔ کمیشن نے بھی تحقیقات کے بعد کہا کہ انتخابات میں بعض حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن کمیشن مجرموں کی نشان دہی کرنے اور ان کو سزا دینے میں ناکام رہا۔

بات یہ ہے کہ کمیشن یا کوئی بھی عدالت فیصلہ اس کے سامنے پیش کئے گئے ثبوت کی بنیاد پر دیتی ہے۔ جب ثبوت ہی پیش نہ کئے جائیں توجرم ثابت کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کسی بھی کیس میں ثبوت دو طریقے سے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جرم آپ کے سامنے ہوا ہے اور آپ اس کے عینی شاہد ہیں۔ اگر آپ کی گواہی قابل ِ قبول ہے تو اس شہادت کی بنیاد پر جرم ثابت ہو گا اور مجرم کو سزا دے دی جائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جرم کا کوئی عینی شہادت توموجود نہیں لیکن حالات اور واقعات ایک مخصوص شخص کے مجرم ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ مخصوص شخص ہی مجرم گردانا جائے گا اور سزا کا مستحق ہو گا۔ تحریک ِ انصاف کے دھرنے کے بعدتحقیقات کے لئے قائم کئے گئے کمیشن نے بہت سے جرائم اورالیکشن کمیشن کی خرابیوں اور غلطیوں کی نشاندہی تو کر دی لیکن مجرموں کی نشان دہی نہ کر سکا یا از خود نشان دہی سے باز رہا۔ چونکہ مجرم ہی نامزد نہ ہوئے اس لئے سزا کا تعین بھی نہ سکا۔

الیکشن کے بعد بننے والے کمیشن نے جو بھی نتائج دئے ہو ں ایک بات بلا خوف ِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن کا نظام بالکل ٹھیک تو نہیں لیکن پہلے سے بہتر ہوا ہے اور ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی نے بعض اصلاحات منظور کی ہیں اور اس بات کا کریڈٹ بلا شبہ تحریکِ انصاف کے دھرنے کو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments