بیوی کے ریپ کا شرعی جواز اور معصوم مفتی۔۔۔ایک وضاحت


اسلام کی جو تھوڑی بہت سمجھ مجھے ہے اس کے مطابق یہ مذہب جن فکری بنیادوں پر کھڑا ہے ان میں تدبر اور استدلال سب سے اہم ہیں۔ نہ یہ اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ عقل کے دروازے پر تالے ڈال دیے جائیں اور نہ ہی اس کا مقصود ایک ایسی جماعت تیار کرنا ہے جس کا بیانیہ مدلل بنیادوں پر نہ کھڑا ہو۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ایک نہیں درجنوں مقامات پر مسلمانوں کو غور و فکر، تدبر اور استدلال کی دعوت دی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام کی سیرت اور صحابہ کرام کی زندگیوں کو پڑھ جائیے ہر جگہ ایک ہی بات غالب نظر آئے گی اور وہ ہے غور و فکر کی دعوت اور انسانوں کے درمیان ڈائیلاگ یا مکالمے کو فروغ دینا۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ ہم ان سب باتوں سے دور ہوتے چلے گئے اور اب نوبت یہ ہے کہ غور و فکر کی جگہ اندھی تقلید نے لے لی ہے اور جنہیں مکالمہ کے لئے تیار رہنا چاہیے تھا وہ لٹھ لے کر اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے تو سہی۔

تقریبا چوالیس ہفتے پہلے شائع میرے ایک مضمون کو ہم سب نے جب دوبارہ شیئر کیا تو تقریبا وہی سننے کو ملا جو چوالیس ہفتے پہلے سن چکا تھا۔ کون سا ایسا الزام اور گالی ہے جو کمنٹس کے خانے میں نہ دی گئی ہو۔ مجھے اس تلخ کلامی کا گلہ نہیں لیکن فکر اس بات کی ہے کہ یہ عدم برداشت اور مکالمہ سے چڑ کبھی ہماری روایت نہیں رہی پھر ہمیں یہ کیا ہو گیا ہے؟ آپ اس مختصر سے مضمون کو الف سے ے تک پڑھ جائیے اور کوئی ایک لائن ایسی بتائیے جس سے یہ شبہ بھی ہوتا ہو کہ مضمون نگار کی تنقید کے دائرے میں مذہب یا شریعت آ رہی ہے۔

مضمون میں ان چند فتاوی کو موضوع بحث بنایا گیا تھا جن میں شوہر بیوی کے تعلق میں مرد کو زبردستی کا اختیار دیا گیا تھا۔ مضمون میں خود بار بار یہ شکوہ کیا گیا کہ جس مذہب نے شادی جیسا شاندار ادارہ اتنی باریکی سے قائم کیا اور عورت کو برابری کے حقوق یقینی بنائے اس کے نام پر ایسے فتوے نہیں جچتے۔ ایسے سوالات اگر مفتیان کے پاس آتے بھی ہیں تو انہیں شوہر بیوی کو مفاہمت اور معاملہ فہمی کی تلقین کرنی چاہیے نہ کہ ایسی باتیں کہیں جن سے دوسروں کو اسلام اور شریعت پر سوال اٹھانے کا موقع ملتا ہو۔ کسی مفتی کی رائے پر سوال اٹھانا نہ تو کفر ہے اور نہ ہی گناہ اور وہ بھی جبکہ سوال اٹھانے والے کو اس پر تحفظات ہوں کہ ایسے فتوے اسلام اور شریعت پر اعتراض کا موقع دے سکتے ہیں۔

جن بھائیوں نے میرے مضمون پر سخت و سست لکھا ان سب سے مجھے اس لئے بھی شکوہ نہیں کہ وہ ایسا دینی جذبہ سے کر رہے ہیں اور شاید میری بات ان تک نہیں پہنچ سکی لیکن ان سبھی دوستوں سے ایک گذارش تو کی ہی جا سکتی ہے کہ وہ خود سوچیں کہ اسلام ایسا عظیم آفاقی مذہب جو بلاشبہ قیامت تک کے لئے ہے کیا اس پر غور و فکر بند کر دینا مناسب ہوگا؟ یہ دین قیامت تک کے لئے ہے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ اس مذہب کے ماننے والے قیامت تک رہیں گے بلکہ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ قیامت تک ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ ہوگا۔

بات بری نہ لگے تو عرض کروں کہ یہ بات اسلام جیسے ڈائنامک مذہب کے شایان شان نہیں کہ اس کے ماننے والے یہ سوچ کر بیٹھ جائیں کہ دین کی تعبیر اور تفسیر کا کام ہو چکا اور اب جو اس پر کلام کرے گا اس کو دین بیزار گردانا جائے گا۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ ہم سوال کرنے اور اختلاف رائے کرنے والے کو بہت آسانی سے مذہب مخالف ہونے کی سند سے نواز دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں رائج پانچ بڑے فقہی مکاتب فکر کو دیکھ لیجیے ایک نہیں درجنوں معاملات پر آراء میں تضادات مل جائیں گے۔ نماز کے دوران ہاتھ کھولنے اور باندھنے کا مسئلہ تو بہت سامنے کا ہے اس بارے میں شافعی، مالکی، حنبلی، حنفی اور جعفری کے یہاں بالکل الگ الگ احکامات ہیں۔

مت بھولئے کہ یہ اور اس جیسے درجنوں بلکہ سیکڑوں فرق ایک ہی دین کی تعبیر میں ہیں۔ معلوم ہوا کہ مجتہد، فقیہ یا مفتی جب کوئی حکم بیان کرتے ہیں تو وہ ان کی دانست دین کی تعبیر ہوتی ہے جو بالکل ضروری نہیں کہ باقی فقہا، مفتیوں یا مجتہدین سے میل کھاتی ہو۔ ایسی صورت میں کیا ہم یہ رویہ اپنائیں گے کہ اپنے والی فقہ کو چھوڑ کر باقی سب کو دین مخالف قرار دے دیں گے۔ یہ سب کہنے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ مفتیان کرام کی آراء جنہیں عرف عام میں فتوی کہا جاتا ہے اور جن میں سے چند ایک مذکورہ مضمون میں بیان ہوئے ان پر سوال یا اعتراض کا مطلب دین پر اعتراض ہرگز نہیں بلکہ اس مخصوص معاملہ میں کسی مخصوص مفتی کی تفہیم پر سوال ہوتا ہے۔

اگر اب تک کی باتوں سے آپ متفق ہوئے ہوں تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہمیں یہ عادت ترک کرنی ہوگی کہ جیسے ہی کوئی ہمارے موقف پر سوال کرے ہم اسے فورا دین دشمنی کا ٹیکہ لگا دیں۔ اسلام سوال کرنے سے روکتا نہیں بلکہ تحریک دیتا ہے اس لئے کہ تدبر جوکہ اسلام کا مطلوب و مقصود ہے اس کی بنیاد ہی سوال جواب پر ہے۔ یوں بھی سوال کرنے والے کا اعتراض اگر بے جا ہوگا تو مفتیان کرام پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ دلائل سے خاموش کر دیں گے۔

ہمیں فکر و فہم سے چڑنے کے بجائے مکالمہ اور علمی بحث کو فروغ دینا چاہیے تاکہ خدشات کا تصفیہ ہو اور جہاں ضروری ہو اصلاح کی صورت نکلے۔ ہماری فکری عدم برداشت نے ہی یہ دن دکھائے ہیں کہ ہم نے سید مودودی، جاوید غامدی اور مولانا وحید الدین خان جیسے اسکالروں کو فکری اختلاف کے سبب کیا کچھ الزام نہیں دیے؟ ان اصحاب کی باتیں اصلاح طلب ہو سکتی ہیں لیکن ہمیں اتنا لحاظ تو رکھنا ہی چاہیے کہ یہ بھی ہمارے ہی دین کی تعبیر و تفسیر کا کام کر رہے ہیں بھلے ہی ان کا موقف مختلف ہو۔

ہمیں کسی مفتی کی رائے پر بظاہر نیک نیتی سے اعتراض کرنے والوں کے بارے میں اتنا حسن ظن تو رکھنا ہی چاہیے کہ اس کا مقصد شریعت پر کسی ممکنہ اعتراض کی جانب توجہ دلانا ہے۔ ایسے میں اسے دین دشمن بتا دینا یقینا انصاف نہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں بحث اور گفتگو کو علمی انداز میں لینا چاہیے۔ اعتراض کو علمی انداز میں رد کیا جائے اور خدشات کا جواب دلائل اور حقائق سے دے دیا جائے تو شاید بطور سماج ہمارے لئے زیادہ مفید ہوگا۔ بدکلامی اور وہ بھی ایسے اچھے لوگوں کی طرف سے جو لباس اور انداز سے دین دار نظر آتے ہوں، جن کا قیام مکہ مدینہ میں ہو اور کعبہ اور مسجد نبوی میں کھڑے ہوکر بڑے فخر اور سرشاری سے جو فوٹو کھنچوا کر فیس بک پر ڈالتے ہوں۔ ایسے لوگ جب علمی انداز کے بجائے غیر اخلاقی لہجہ اختیار کرتے ہیں تو سچ میں دل دکھتا ہے۔

بیوی کے ریپ کا شرعی جواز اور معصوم مفتی

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments