ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے راست اقدام


دشمن تلا بیٹھا ہے کہ وہ ہر صورت اسلام کوبدنام کرنے کے لئے جھوٹ کی نجاست پر با ربار منہ مارتا رہے گا۔ اپنی حسرت و یاس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مسلم دنیا میں آگ لگاتا رہے گا۔ اس کے لئے خواہ اسے اپنا کتنا ہی تصوراتی گند باہر لانا پڑے ۔کتنی جھوٹی کہانیاں گھڑنی پڑیں ۔ گستاخانہ خاکے آئے دن کا معمول بنتے جا رہے ہیں ۔ ایک شاتم رسول ٹھنڈا پڑتا ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے ۔ ا س معاملے کو ہر سطح پر روکنے اور مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن قتل کے فتوے اس کا حل ہیں نہ آئندہ ہوں گے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ہالینڈ کا ایک سیاسی لیڈر گیرٹ ویلڈرز اس کام میں پیش پیش ہے ۔ نبی رحمت ﷺ پر حملہ آورہونے کا کوئی اور مقصد نہیں سوائے اس کے کہ عام طو رپر لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جائے ۔ آزادی اظہار کے نام پر مادر پدر آزادی پر عمل پیرا ہو کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہر طرح سے قابل مذمت ہے ۔ اسلام کا دشمن میڈیا کے ذریعے حملہ آور ہے ۔ جس رنگ اور جن ذرائع سے دشمن حملہ آور ہے اسی رنگ اور طریق پر مسلمانوں کو دفاع کرنا چاہئے ۔ بلکہ آگے بڑھ کر اقوا عالم کو بتاناچاہئے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ اصل میں کیسے تھے۔ آپ کی تعلیمات کیسی تھیں ۔ امن و آشتی صلح کاری کے اصل چمپیئن توتھے ہی آپ ﷺ۔
مسلم دنیا کے میڈیا کو چھوڑ بھی دیں تو پاکستانی میڈیا کو ا س معاملے میں سنجیدگی سے بعض عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مثبت اور عملی کرداراسے امر کر دے گا ۔ معاملہ نازک ہے لیکن بعض ٹی وی چینلز پر بعض حضرات کی گفتگو سے محسوس ہو تا ہے کہ انہیں عشق رسول ﷺ کے نام پر بھی مارکیٹنگ درکا رہے۔ ا س نازک اور حساس معاملے پربھی ان کی ریٹنگ کی بھوک عشق رسول پر حاوی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ خدا را ہمیں اس ظلم سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ کسی ایک معاملے کو تو تجارت اور ریٹنگ کی عینک اتار کر دیکھنا چاہئے ۔
اپنی ضرورت کے لئے آئے روزہمارا میڈیا مختلف موضوعات پر اسپیشل ٹرانسمیشن کرتا رہتا ہے ۔ ایسے پروگراموں میں تجزیہ کار ، اینکر حضرات، کیمرہ مین او ردیگر عملہ کھانے پینے کی پرواہ کیے بغیر گھنٹوں لائیو نشریات چلاتا ہے۔ بعض اوقات ساراسارا دن اور ساری ساری رات یہ ٹرانسمیشن چلتی ہیں۔ لیکن ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کے لئے، عشق رسول کی خاطر ، اپنے ایمان کی حرارت کے لئے ، سیرت النبی ﷺ پر اسپیشل ٹرانسمیشن کیوں نہیں کر سکتے۔؟ علماء کرام، اہل علم ، محققین، دانشور اور تجریہ کار کیوں اپنی خدمات سار ی ساری رات اور سارا سارا دن ا س نیک کام کے لئے پیش نہیں کر سکتے ۔؟ عوام کو درست سمت میں گائیڈ کرنے لئے سیرت النبی ﷺ اور عشق رسول کے مستند واقعات کیوں نہیں سنا سکتے ۔؟احمدیوں کو گالی دئیے بغیر سیرت النبی ﷺ پر کوئی تقریر کیوں نہیں کر سکتے۔؟ قتل کے فتوے دئیے بغیر سادگی سے واقعات سیرت کیوں بیان نہیں کر سکتے۔
ناموس رسالت ﷺ پر ہونے والا حالیہ واقعہ کوئی پہلا حملہ نہیں اور نہ ہی آئندہ دشمن کی شرارتیں مستقل بندہو گئی ہیں ۔ ہمیں وقتی جوش سے بالا ہوکر مستقل علمی بنیادوں عوام کی تربیت میں کردار اد اکرنا چاہئے ۔ تاکہ آئندہ آنے والے ہر واقعہ کے لئے اور ہر مذموم شرارت کے سد باب کے لئے ہماری نسلیں عشق رسول ﷺ کے حقیقی رنگ میں رنگین ہو جائیں۔ ہمارے بچے سیرت النبی ﷺ پر مستند بات کر سکیں۔ آپ کی سیرت اور کردار کو اپنا کر اپنی شخصیت کی کردار سازی کر سکیں۔ ا س سلسلے میں بہت سارے پروگرام ترتیب دےئے جا سکتے ہیں۔ ذیل میں چند ایک تجاویز میڈیا اور احباب حل و عقد کے لئے پیش ہیں:
* سیرت النبی ﷺ پر کانفرنسز منعقد کرائی جائیں۔ جس میں مستند علمی او رتحقیقی مواد عوام کے سامنے لایا جائے ۔
*حیات طیبہ پر انعامی مقالہ جات لکھو ائے جائیں ۔ یہ کام حکومت بھی کر سکتی ہے اور الگ الگ ہر ٹی وی چینل بھی کر سکتا ہے۔
*نعت خوانی کے مقابلے منعقد کروائے جائیں۔ یہ مقابلے علاقائی اور قومی سطح پر بھی ہو سکتے ہیں۔ ہر ٹی وی چینل یہ کام کر سکتا ہے۔
*نعت گوئی کا مقابلہ کر وایا جائے ۔ ان مقابلوں کی تشہیر میڈیا پر کی جائے اور انعام دیا جائے۔
*سیرت النبی ﷺ پر تقریری مقابلہ کروا یا جائے ۔ یہ مقابلے اردو ، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی کروائے جاسکتے ہیں۔
* بچوں اور بڑوں کے لئے الگ الگ سیرت النبی ﷺ پرمشتمل کوئز پروگرام منعقد کئے جائیں ۔
*سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیرت النبی ﷺ کانفرنس اور جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ منعقد کر نے کو رواج دیا جائے ۔ ایسے اجلاسات میں کلیۃً بد زبانی سے پرہیز کیا جائے ۔
* بہت سے غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے آنحضور ﷺ کی کھل کر تعریف کی ہے ۔ ان کے بیانات کو با ر بار میڈیا پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ تاکہ ہماری نسلوں کو معلوم ہو کہ نبی اکرم ﷺ کی ذات ایسی ہے کہ ایک منصف مزاج دانشور اور عالم اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ اور جو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی پر تلا ہو اہے وہ کلیۃً بے بہرہ اور ناواقف ہے ۔
*دور حاضر کے غیر مسلم دانشورو اور صاحبان علم کو دعوت دی جائے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
*آپ ﷺ کا دشمنوں سے حسن سلوک کے عنوان سے با ربار علما ء کرام سیرت سے مستند واقعات عوام کے سامنے پیش کریں۔ تاکہ لوگ ان نمونوں کو اپنائیں اور عمومی طو رپر معاشرے میں برداشت اور دوسروں کے قصور معاف کرنے کے رویے کو فروغ ملے۔
* ایسی تقریبات ، مقابلہ جات اور اجلاسات میں رسول اکرم ﷺ کی شان اور ناموس کے پیش نظر کسی بھی قسم کے گالی گلوچ سے کلیۃً پرہیز کیا جائے ۔
* دشمن چاہتا ہے کہ مسلمان غصے میں آئیں اور ہماری حرکات کوجواز بنا کر وہ دنیا کے سامنے اسلام کی مکرو ہ شکل پیش کرنے کا راستہ نکالے۔ دنیا میں اسلام کی طرف راغب ہونے والے غیر مسلوں کو اسلام سے متنفر کیا جا سکے۔ دشمن ہمیں زچ کرنے اور غصہ دلا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے لیکن ہم نے تمام دنیا کو بتاناہے :
ہم ہوئے خیر امم تجھ ہی سے اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
ہمیں خیر امت قرار دیا گیا ہے تو ہمیں خیر امت یعنی بہترین امت بن کر دکھانا ہو گا۔ ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارے حوصلے بلند اور کردار بلند تر ہے ۔ ہم اس نبی کے پیرو ہیں جسے مکارم اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز کیا گیا ہے ۔
نو ردکھلا کے تیرا سب کو کیا ملز و خوار سب کا دل آتش سوزاں میں جلایا ہم نے
او راس کے لئے ہمیں رکنا ہوگا عشق رسول ﷺکے مقدس نام پر اپنی ریٹنگ کی بھوک مٹانے سے۔ ایسے نازک مواقع پر منفی سوالات سے ۔ ہمیں اکٹھے ہونا ہو گا اس قدر مشترک پر ۔جب ہم یہ کریں گے تو پاکستان میں رہنے والی غیر مسلم اقلیتیں بھی پیچھے نہیں رہیں گی۔لیکن اس میں ہمیں یہ یقین دہانی کروانی ہو گی کہ پاکستان میں موجود اقلیتوں کے مذہبی راہنماؤں اور مقدس ہستیوں کا ہم بھی احترام کریں گے۔
اگر ہم یہ کر لیں تو شاید پھر ہمیں سڑکیں بند کرنے ، گھیراؤ جلاؤ کرنے ، توڑ پھوڑ کرنے ، پبلک املاک کو نقصان پہچانے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ اگر کبھی اجتجاج کرنابھی پڑے تو مہذب اجتجاج ہو ۔ پر امن اجتجاج ہو ۔آدھی سڑک کھلی چھوڑکر ، ٹریفک کے بہاؤ میں بغیر کسی رکاوٹ کے اجتجاج ہو۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ جس مقدس نبی ﷺ کے نام پر ہم اجتجاج کرنے نکلتے ہیں اس کا اپنا اسوہ کیا تھا۔ ہم دنیا کو بتانے والے ہوں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ راستوں کے بھی حقوق اد اکرو۔ فرمایا راستوں پر نہ بیٹھا کرو۔ یعنی راستوں میں رکاوٹ پید انہ کرو۔ اگر مجبوراً کبھی راستے پر بیٹھنا پڑے تو پھر راستے کے حقوق ادا کرو ۔ عرض کیا گیا۔ اللہ کے پیارے رسول ! راستے کے حقوق کیا ہیں۔؟ فرمایا ہر آنے جانے والے کوسلام کہو۔ یعنی ہر آنے جانے والے کے لئے سلامتی بن کر رہو۔ گزرتے ہوئے لوگ تمھاری وجہ سے خود کو ان سیکیور محسوس نہ کریں۔
ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم اپنی ہی جائیداد کو نقصان پہنچا کر ۔ اپنے ہی بہن بھائیوں پر راستے بند کر کے۔اپنی ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے ۔مریضوں مسافروں ، لاچاروں ، بوڑھوں ، بچوں اور خواتین پر راستے بند کرکے کیسا عشق رسول ﷺ کمانے والے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).