میرٹ اور عقیدہ ۔۔۔۔ تاریخی تناظر میں


ساٹھ گھنٹے گزر گئے۔ سوشل میڈیا پر اب بھی عاطف میاں پر بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔ عاطف میاں کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شامل کیا کیا کہ ہر طرف اب بھی شور برپا ہے۔ دو روز پہلے عاطف میاں صاحب سینیٹ میں زیر بحث رہے۔ گزشتہ روز توجہ دلاؤ نوٹس پر قومی اسمبلی میں زیر بحث رہے۔ جمعیت علمائے اسلام ف کی طرف سے فضل الرحمان صاحب کے بھائی عطا الرحمان اور ان کے بیٹے اسد محمود نے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرایا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عاطف میاں کے معاملے پر پورے ملک میں اضطراب اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ اس پر حکومت جامع پالیسی وضع کرے۔

عاطف میاں کے معاملے پر گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دلیرانہ انداز میں حکومت کا موقف پیش کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عاطف میاں کے معاملے کا مذہب یا عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا کچھ انتہا پسند یہ چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو اٹھا کر باہر بھینک دیں۔ ایک انسان ہے جس کے بارے میں دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں اسے نوبل پیس پرائز ملنے والا ہے۔ اسے اکنامک ایڈوائزی کونسل میں لگایا گیا ہے۔ اسے اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر تو نہیں بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اقلیتوں کا بھی اتنا ہی ملک ہے جتنا اکثریت کا ملک ہے۔ عاطف میاں کی تقرری پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ عاطف میاں کی تقرری پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، وہ انتہا پسند ہیں۔ حکومت ان انتہا پسندوں کے سامنے نہیں جھکے گی۔

ان کا کہناتھا کہ پاکستانی اقلیتوں کی حفاظت کرنا حکومت اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ اقلیتی برادری کی حفاظت یقینی بنائے۔ بعد میں ایک ٹوئیٹ کے ذریعے فواد چوہدری صاحب نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے سر ظفراللہ خان کو پاکستان کا وزیر خارجہ لگایا تھا۔ اس لئے ہم جناح صاحب کے اصولوں کی پیروی کریں گے، انتہاپسندوں کے نظریہ کو نہیں مانیں گے۔ یہ ہماری حکومت کا ایک واضح پیغام ہے۔

مولانا فضل الرحمان کو کچھ سال پہلے دل کی تکلیف ہوئی تھی۔ اس زمانے میں امریکہ سے ایک ہارٹ اسپیشلسٹ پاکستان میں آئے ہوئے تھے جن کا نام ڈاکٹر مبشر تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کے کہنے پر ڈاکٹر مبشر نے فضل الرحمان کی انجیو پلاسٹی کی تھی جس سے وہ ٹھیک ہوگئے تھے۔ اب ماشا اللہ ان کا دل ٹھیک کام کررہا ہے۔ ڈاکٹر مبشر قادیانی ہیں۔ ہارٹ اسپیشلسٹ جب آپریشن کررہا ہوتا ہے تو وہ ہارٹ اسپیشلسٹ ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی اکانومسٹ اکانومی کا اسپیشلسٹ ہو تو وہ اقتصادی صورتحال کو بہتر کررہا ہوتا ہے کسی عقیدے کا پرچار نہیں کررہا ہوتا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما جناب احسن اقبال نے اس حوالے سے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرٹ اور مذہب کو مکس نہ کیا جائے۔ اسلام میرٹ کی بات کرتا ہے۔ اب آتے ہیں اس سنہری دور کی جانب جن کی مثال ہم مسلمان ہمیشہ دیتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ کبھی مسلمان اتنے ترقی یافتہ اور عظیم بھی تھے۔

یہ البیرونی، ابن خلدون، ابن الرشد اور ابن سینا وغیرہ جیسے عظیم لوگ وہ ہیں جن کی ہم مثال دیتے رہتے ہیں۔ اسلام کے اس سنہری دور میں میرٹ اور عقیدے کو الگ رکھا گیا۔ اس لئے ہم ترقی یافتہ کہلائے۔ عباسی دور حکومت میں جب ہارون الرشید خلیفہ تھے تو اس وقت ایک ادارہ تھا جس کا نام بیت الحکمہ تھا۔ جسے انگریزی زبان میں house of wisdom بھی کہتے ہیں۔ یہ ادارہ اس وقت دنیا کی اہم ترین لائبریری تھی۔ وہاں سے لوگ پڑھتے اور دنیا کی حکومتوں کا انتطام چلاتے تھے۔

اسی بیت الحکمہ سے پھوٹنے والے علم سے یورپ نے فائدہ اٹھایا۔ اب سوال یہ ہے کہ بیت الحکمہ میں وہ علم کہاں سے آیا تھا؟ وہ علم تو یونانی تھا۔ وہ علم تو یونانی فلسفہ تھا جسے ترجمہ کرکے بیت الحکمہ میں رکھا گیا۔ اور پھر سب کچھ وہاں سے سیکھا گیا۔ کیا کبھی انہوں نے اعتراض کیا کہ کافروں اور غیر مسلموں کی کتابیں کیوں ترجمہ کرکے لائبریری میں رکھی گئی ہیں؟

ارسطو، سقراط، افلاطون کون تھے؟ عباسی دور میں بہت سے عیسائی اور یہودی وزرا مختلف محکموں میں تعیناتکیے گئے تھے۔ عباسی دور میں جس انسان نے یونانی لٹریچر اور فلسفے کا ترجمہ کیا تھا وہ یہودی تھا جسے ابن السحاق کہا جاتا ہے۔ وہ نہ ہوتا تو کیا آج ہم کہتے کہ ہمارا بھی ایک سنہری دور تھا۔

فاطمی دور میں آجائیں۔ مسلمانوں کے اس سنہری دور میں بھی اکثر منسٹرز، چیف منسڑز اور چیف سیکریٹریز غیر مسلم تھے۔ سوال یہ ہے کہ خوشحالی کن کی ہورہی تھی؟ خوشحالی اور ترقی تو مسلمانوں کی ہورہی تھی۔

مسلمان خلفا نے ان غیر مسلم قابل انسانوں کی مہارت سے فائدہ اٹھایا۔ یروشلم کو آزادی دلانے والا صلاح الدین ایوبی ایک انسان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا تھا، وہ انسان ان کا یہودی شاہی طبیب تھا۔ اب سنہری دور میں اندلس کی بات کر لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے سنہری دور میں قرطبہ یونیورسٹی اس وقت دنیا کی اہم یونیورسٹی تھی۔ یہاں سے پڑھ کر لوگ پوری دنیا کو ترقی یافتہ بناتے تھے۔ اس یونیورسٹی کو چلانے والے اکثر غیر مسلم ماہرین تھے۔

اندلس اور جبرالٹر کی بات کرتے ہم نہیں تھکتے۔ کیا ہمیں یہ معلوم ہے کہ 1035 میں مسلمانوں کا ایک ایسا خلیفہ تھا جو عیاش تھا۔ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا۔ اس وقت سلطنت کا انتظام ایک یہودی وزیر چلا رہا تھا۔ اس وزیر کا نام تھا سمیع ابن النغریلا۔ مسلمانوں کی سلطنتوں میں ہمیشہ یہودی شاہی طبیب ہوتے تھے کیونکہ ان کو اس شعبے میں مہارت تھی۔ یہودی مالیاتی نظام چلانے کے ماہر ہوتے تھے۔ اس لئے فاطمی، عباسی ادوار میں فنانس منسٹر ہمیشہ یہودی ہوا کرتا تھا۔ کیا اس سنہری دور میں بادشاہ یا خلفا میرٹ کے نظام میں فرقے یا عقیدے کو درمیان میں لاتے تھے؟

جب ہم ہر روز اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لو۔ تو پھر عملی طور پر اس کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ مسلمانوں کی عثمانی سلطنت بہت بڑی سلطنت تھی۔ اس میں شاہی طبیب، فنانس منسٹر اور فارن منسٹرز یہودی ہوا کرتےتھے۔ انہوں نے سیاسی اور ریاستی معاملات میں مذہب کارڈ استعمال نہیں کیا۔ اس وجہ سے وہ دور مسلمانوں کا سنہری دور کہلاتا تھا۔

جنرل باجوہ ابھی چیف آف آرمی اسٹاف تعینات نہیں ہوئے تھے تو پروپگنڈہ کیا گیا کہ ان کا عقیدہ کچھ اور ہے۔ مسلم لیگ ن کے سنیٹر ساجد میر نے کیا کہا تھا کہ انہیں تشویش ہورہی ہے کہ ایک قادیانی کو چیف آف آرمی اسٹاف لگایا جارہا ہے۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ اب انہیں تسلی ہوگئی ہے، جنرل باجوہ پکے مسلمان ہیں۔ بلاگرز کے ایشو کو دیکھ لیں۔ اسی طرح احسن اقبال کو گولیاں ماری گئی۔ اچھی بات یہ ہے کہ شہلا رضا نے عاطف میاں کے بارے میں کی گئی ٹوئیٹ ڈیلیٹ کردی ہے۔ امید ہے عمران خان کی حکومت انتہا پسندوں کے سامنے نہیں لیٹے گی۔ ایک بار بھی اگر عمران خان کی حکومت انتہاپسندوں کے سامنے لیٹ گئی تو اس حکومت کو پورے پانچ سال کی مدت کے دوران سینکڑوں بار لیٹنا پڑے گا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سٹر آف فزکس کا نام ڈاکٹر سلام کے نام پر رکھا تو ہنگامہ برپا ہوگیا لیکن وہ ڈٹے رہے۔ کیا آج ن لیگ کو عاطف میاں کے ایشو پر مذہبی کارڈ استعمال کرنا چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).