راجندر سنگھ بیدی اور لاہور


\"image1\"راجندر سنگھ بیدی نے لکھا ” عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں۔ “ 1947ء کی داروگیرمیں وہ برے حال بانکے دھاڑے جان بچاتے لاہورسے چلے گئے تھے، پر اس کی یاد انھیں مرتے دم تک تڑپاتی رہی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں وہ ذکر لاہور پر پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ یکم ستمبر 1915ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے اس ادیب نے، بچپن میں اس شہر میں انسان کے ہاتھوں انسان کا خون بہتے دیکھا اور اس قدر گہرا اثر قبول کیا کہ وقتی طور پر قوت گویائی سے محروم ہو گئے۔ لکھنا شروع کیا تو نام رکھا، محسن لاہوری۔ کالج میگزین میں نظم سے ادبی سفر شروع کیا۔ پنجابی میں خامہ فرسائی بھی کی۔ ”دکھ سکھ “کے عنوان سے کہانی لکھی۔ اردو میں پہلی کہانی رابندر ناتھ ٹیگور کے رنگ میں ”مہارانی کا تحفہ “ تھی جس نے 1936ء میں ”ادبی دنیا“ کے سالنامے میں شائع ہو کر بہترین کہانی کا انعام پایا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ مزے سے کہانیاں لکھیں۔ افسانوں کا مجموعہ ”دانہ و دام “ چھپ گیا۔ یہ مگر پتا نہ تھا کہ کتاب کی رائلٹی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اوپندر ناتھ اشک سے یہ معلوم پڑا تو پبلشر سے دو دو ہاتھ کرنے گئے، اس نے پہلے تو گنڈیریوں پر ٹرخا دیا، لیکن بعد میں پیسے بھی دے دیے۔ پبلشر تھے، نذیر احمد چودھری، جن سے بعد ازاں ان کا تعلق، پبلشر رائٹر کی سطح سے بلند ہوکر گہری دوستی میں بدل گیا۔

بیدی کے لاہور سے رشتے ناتے کے بارے میں باتیں بہت سی ہیں، جن کے بیان سے پہلے اس ماحول کا ذکر ہو جائے، جس نے انھیں کہانی کار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بیدی کے بقول ”میری ماں اکثر بیمار رہا کرتی تھیں اور میرے والد جو بہت ہی devoted  قسم کے شوہر تھے، ایک دھیلے کرایے پر بازار سے ناول لے آتے تھے اور میری بیمار ماں کے پاس بیٹھ کے انھیں سنایا کرتے تھے۔ ہم بچے پائنتی میں دبک کر سنا کرتے تھے۔ آپ مانیں گے کہ پانچ چھ سال کی عمر میں شرلاک ہومز، ٹاڈز راجستھان، مسٹریز آف دی کورٹ آف پیرس اور رطب ویابس قسم کے ناول جو تھے وہ ہمارا پس منظر ہو گئے۔ افسانہ تو شعور کی چیز ہے۔ شعور میں ایک شکل بیٹھ گئی افسانے کی، چناچہ جب میں نے انیس یا بیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ کوئی دقت ہی نہیں پیش آرہی۔ میرے ایک چچا تھے جن کے پاس ایک پرنٹنگ پریس تھا لاہور میں، وہاں اردو کی کتابیں چھپتی تھیں۔ پہلے لاہور میں تو اردو ہی کا رواج تھا۔ ہر کتاب جو وہاں چھپتی اس کی دو تین کاپیاں وہاں پڑی رہا کرتی تھیں۔ کچھ ترجمے کی صورت میں کچھ اوریجنل۔ کچھ تیرتھ رام فیروز پوری ٹائپ کے، کچھ رومانی قسم کے، وہ سب پڑھے تھے۔ اور جب دوسرے بچے ادھر ادھر کھیلا کرتے تھے، میں مکان کی چھت پہ بیٹھ کے انھیں پڑھا کرتا تھا۔ وہ بھی بنیاد بن گئے، میری افسانے نگاری کی۔ “

بچپن میں آنکھوں دیکھے ایک واقعے سے بیدی دہل کر رہ گئے۔ ”بیدی نامہ “کے مصنف شمس الحق عثمانی کو انھوں نے بتایا

\"13288461_1066446130110015_1105700912_o\"” یہ اسکول کے زمانے کی بات ہے، شاید28ء یا 29ء ہو گا۔ ہم لاہور کے ڈبی بازار میں رہتے تھے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ایک دن اچانک فرقہ وارانہ فساد شروع ہوگیا۔ ہم جہاں رہتے تھے وہاں سکھ اور ہندو مارے جانے لگے اور شاہ عالمی گیٹ کے آس پاس مسلمان۔ بڑا ہنگامہ تھا۔ میں ایک روز اپنے گھرکی کھڑکی سے باہرسڑک پر دیکھ رہا تھا، باہر جانا تو منع تھا۔ میں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک سکھ چلا آرہا ہے، اچانک کچھ آدمیوں نے اسے نرغے میں لے لیا۔ ایک کھیرے بیچنے والا تھا :علم دین، وہ لاٹھی لے کر آگے بڑھا اور اسے ما رمار کر گرا دیا۔ سامنے کی دکان والا حجام اپنا استرا لے کرآگے بڑھا اوراسترے سے اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔ اور پھراس کی آنکھیں نکال لیں۔ ڈر کی وجہ سے میں چیخنا چاہتا تھا مگر چیخ نہ سکا جس کا اثر یہ ہوا کہ میں گونگا ہوگیا۔ بولا ہی نہیں جاتا تھا۔ اسی بیچ بیمار پڑ گیا۔ رفتہ رفتہ گویائی واپس آئی مگر بہت دنوں تک زبان کی لکنت نہیں گئی۔ یہ واقعہ دیکھا توخود کوبہت بے بس محسوس کیا۔ “

 راجندر سنگھ بیدی نے پانچویں جماعت تک تعلیم لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں حاصل کی۔ والد کا تبادلہ کینٹ سے شہر کے ڈاک خانے میں ہوا تو کے ایس بی بی ایس خالصہ اسکول میں داخلہ ہو گیا۔ یہیں سے میٹرک کیا۔ ڈی اے وی کالج سے انٹرمیڈیٹ کر لیا تو والد نے بیٹے کوڈاک خانے میں کلرک بھرتی کرا دیا۔ روزگار کے ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ نوکری کے ہلے سے لگے تو ایک برس بعد شادی ہو گئی۔ بچے ہو گئے۔ تنخواہ قلیل۔ خرچے زیادہ۔ گزر بسر مشکل سے ہوتی۔ بیوی، صابرشاکر نہ ہوتی تو زندگی اجیرن ہو جاتی۔ فکشن کے ساتھ ریڈیو کے لیے بھی لکھتے۔ ڈاک خانے میں ملازمت کا عرصہ بیدی پر گراں گزرا۔ طوعاً و کرہاً کام کرتے رہے۔ ان کے بقول :

”جب ڈاک خانے میں کام کرتا تھا توڈیوٹی کے گھنٹے مقرر نہ ہونے کے برابر تھے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ سترہ اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی دینی پڑتی تھی۔ کام کی کوئی حد نہیں تھی۔ ہر طرح کا کام کرنا پڑتا تھا۔ چٹھیاں چھانٹو، فائلیں ادھر سے ادھر لے جاﺅ، افسروں کے خط ان کے گھروں پر پہنچاﺅ۔ بڑا برا حال ہو جاتا تھا تھک کر۔ رات کوگھر پہنچ کر یوں لگتا کہ اب بستر سے اٹھا نہیں جائے گا۔ پھر جب میری ڈیوٹی منی آرڈر والی کھڑکی پر لگی توبھاگ دوڑ ذرا کم ہو گئی۔ اس کام کے زمانے میں ایک لطیفہ ہوا تھا۔ لوگوں سے منی آرڈر اور روپے وصول کرنے کے بیچ میں ہی میں کہانی بھی لکھا کرتا تھا۔ ایک دن یہی حرکت کر رہا تھا کہ کسی نے سو روپے منی آرڈرکرنے کے لیے فارم دیا، میں نے فارم لے کر رسید بنا دی اور سو روپے لینے بھول گیا۔ حساب کیا تو خبر ہوئی کہ سوروپے کم ہیں، سب کہانی وہانی بھول گیا۔ اس دن کے تمام فارموں کے پتے لکھے اور لوگوں سے پوچھتا پھرا۔ وہ آدمی جس نے روپے نہیں دیے تھے اوررسید لے گیا تھا، جب ملا توکہنے لگا: ”سردار جی! اوروں کے بارہ تو بارہ بجے ہی بجتے ہیں مگر لگتا ہے کہ تمھارے بارہ سارا دن بجتے ہیں۔ “

\"13271383_1066445893443372_918296154_o\"راجندر سنگھ بیدی کے ہاں اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے کا احساس رہا ہوگا اس لیے لاہورکینٹ سے ان کا تبادلہ شہر میں ہوگیا تو منشی فاضل میں داخلہ لیا جہاں غم روزگار سے فراغت کے بعد پہنچ جاتے، یہ سلسلہ مگرزیادہ لمبا نہ کھینچا، جس کی وجہ لاہورمیں مسجد شہید گنج کے باعث پیدا ہونے والی کشیدہ فضا بنی۔ ڈاکخانے میں کام کے دوران” ادب لطیف “کے اعزازی مدیر بنے۔ ان کے بقول”وہ کام اعزازی تھا، بالکل اعزازی تھا۔ وہ پیسا ویسا دینے میں بالکل یقین نہیں رکھتے تھے، وہاں (لاہور میں) میں پوسٹ آفس کا کام بھی کرتا تھا اورساتھ ہی یہ بھی کرتا تھا۔ “

بیدی نے دس برس سے زائد عرصہ ڈاکخانے کی ملازمت کے بعد آخرکار 1943ءمیں اس کمبل سے جان چھڑالی۔ اس وقت جی پی او میں ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ کنھیا لال کپورکے بقول، بیدی نے یہ ملازمت کرشن چندر کے کہنے پر چھوڑی، جس سے اس کے دوستوں کوحیرت بھی ہوئی کہ بیدی جیسے کم ہمت نے یہ فیصلہ کیسے کرلیا۔ اس ملازمت کو تیاگ کر ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھے۔ اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ریڈیو میں کام کیا۔ ریڈیو میں ملازمت دلانے میں پطرس بخاری کا ہاتھ تھا۔ برطانیہ اورجاپان کی لڑائی کے دوران ان کو پانچ سو روپے تنخواہ پر پشاور بھیج دیا گیا۔ ایک سال بعد دوبارہ لاہورآ گئے۔ مہیشور فلمز کے لیے چھ سو روپے مہینہ پر فلم لکھی۔ اس زمانے میں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں شریک ہوتے۔ تخلیقات پیش کرتے۔ دوسروں کی نگارشات پر رائے دیتے۔ لاہور میں کئی نامور ادیبوں سے دوستانہ مراسم قائم ہوئے، سب سے بڑھ کر دوستی اوپندر ناتھ اشک سے تھی۔

اشک پراپنے خاکے ”ترک غمزہ زن “میں لکھا۔ اشک کا گھرانارکلی کے بازار سے ہٹ کر پیچھے ایک گنجان آباد گلی میں تھا، جس میں اکثرعورتیں اپنے مکان سے ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے سنائی دیتی تھیں۔ ”بابھو“آج تیرے کیاپکا ہے؟“ اور وہ جواب میں کہتی ”آج کچھ نہیں پکا۔ یہ باہرکھانا کھا رہے ہیں نا۔ تو دال ایک کٹوری میں بھیج دینا۔ “اور کہیں آپ بے خبرجا رہے ہوں تواوپرسے کوڑا گرتا ہے اورآپ کی طبیعت صاف کردیتا ہے۔ گلی میں اتنی جگہ نہیں کہ کوئی اچھل کرایک طرف ہوجائے۔ کوئی لڑکا کوٹھے میں کھڑا سامنے کی کھڑکی میں جھکی ہوئی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کراس کی ہتھیلیاں کھجلا دیتا ہے جو لاہورکا عام منظر ہے اورجس سے پتا چلتا ہے کہ عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں۔ اور اشک اس گلی میں رہتا تھا۔ “

\"13275035_1066445696776725_1089450589_o\"ڈاکٹرآفتاب احمد نے حلقہ ارباب ذوق پر اپنے مضمون میں اس کے باقاعدہ قیام سے پہلے چند ادب پسند دوستوں کی ایک انجمن کا ذکرکیا ہے جہاں یہ لوگ مہینے میں دو ایک بارکسی ایک گھرمیں مل بیٹھتے اور ایک دوسرے کواپنے اپنے افسانے مضامین اور اشعار سناتے۔ اس انجمن کے ایک ایسے اجلاس کے بارے میں، جس میں بیدی نے افسانہ پڑھا، آفتاب احمد نے لکھا ہے:” کچھ عرصہ کے بعد اس انجمن کا ایک اورجلسہ شیرمحمد اختر ہی کے ایک ادب پسند دوست منصور احمد کے گھر پر ہوا۔ یہ گھر ہمارے محلے ہی میں واقع تھا۔ یہاں شریک ہونے والوں میں میرے دوست صفدرمیر(زینو)اورامجد حسین بھی تھے۔ یہاں بھی نشست فرشی تھی اور یہاں بھی پرتکلف چائے کا اہتمام تھا، لوگ بھی کچھ زیادہ تھے۔ میرا جی کو پہلی دفعہ میں نے یہیں دیکھا، قیوم نظر بھی ان کے ساتھ تھے جن سے صفدر، امجد اور میری پہلے سے ملاقات تھی کیونکہ وہ بھی ہمارے محلہ دار تھے۔ بہرحال یہاں اوپندرناتھ اشک نے ایک افسانہ پڑھا جس کا نام مجھے یاد نہیں اوراس کے بعد راجندرسنگھ بیدی نے اپنا مشہور افسانہ ”گرہن “پڑھ کرسنایا۔ مجھے یاد ہے کہ بیدی اپنے افسانہ کا آخری حصہ اس جذبے سے پڑھ رہے تھے کہ سامعین پرانہماک کے مارے سکتے کا عالم تھا اورجونہی افسانہ ختم ہوا ہرطرف سے داد تحسین کا ایسا شور اٹھا کہ محفل گویا محفل مشاعرہ بن گئی۔ “

 لاہور ریڈیو اسٹیشن پر کام کے دوران کئی شخصیات سے ان کا ملنا جلنا رہا۔ رفیع پیر اور موہنی حمید کے بارے میں احمد سلیم اور سکھ بیر کو ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا:

 ”رفیع پیرسے بھی آپ کا تعلق رہا ہوگا “

”میں جب آل انڈیا ریڈیولاہورمیں کام کرتا تھا۔ ان کا ڈراما ”اکھیاں“بہت مشہور ہوا تھا۔ یہ بہت خوبصورت ڈراما تھا۔ انھوں نے دوتین بڑے بڑے ڈرامے لکھے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے، وہ جرمن زبان سے ترجمہ کرلیا کرتے تھے۔ “

”…آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ نقل “

\"13288961_1066446313443330_368782418_n\"”جب ایک دوکتابیں ہمارے ہاتھ لگیں تو ”اکھیاں“ اوردوسرے ڈرامے بھی وہاں سے اڑائے ہوئے تھے۔ ان کا اپنا کچھ نہیں تھا۔ ویسے میری ان سے اچھی علیک سلیک تھی لیکن گہرے تعلقات نہیں تھے۔ “

”وہ ڈرامے کے فن کاربھی تھے۔ “

”ہاں تسلیم، اور ان کی آواز کوسلام۔ بہت خوب صورت آواز تھی۔ ایک اورآواز تھی، موہنی حمید کی، اس کا بھی جواب نہیں تھا۔ موہنی حمید سے بھی اچھی یاد اللہ تھی۔ ایک دوباراس پر مصیبتیں پڑیں (یہ مت پوچھیں، کیا مصیبتیں تھیں وہ؟) ہم نے بیچ میں پڑ کر ان کی مددکی۔ “

 راجندر سنگھ بیدی نے 1946ءمیں سنگم پبلشر لمٹیڈ قائم کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ تقسیم کا عمل قریب آ گیا تھا، لیکن بیدی کا لاہور ہی میں رہنے کا ارادہ تھا، اس لیے وہ ادھر پبلشنگ ہاﺅس کھول رہے تھے۔ سنگم پبلشر لمیٹڈ کے پلیٹ فارم سے جو کتابیں شائع ہوئیں، ان میں بیدی کی اپنی ڈراموں کی کتاب ”سات رنگ “ بھی شامل تھی۔ بیدی کو پبلشنگ کے کام سے دلچسپی بہت تھی۔ اپنے ادارے سے شائع ہونے والی کتابوں کا تعارف خود لکھتے۔ چیخوف کی لمبی کہانی ”مائی لائف“ کا مشتاق بھٹی کے قلم سے ترجمہ کتابی صورت میں چھاپا تو اس کے شروع میں چیخوف کے فن پر سیر حاصل بات کی۔ عبدالمجید بھٹی کے شعری مجموعے ”نام وننگ “کے بیک فلیپ پر مطلبی فرید آبادی کے مجموعہ کلام ”ھیاھیا“ کا تعارف بھی بیدی نے تحریر کیا۔ یوگینی نکولائیوچ چرخوف کے ناول کا ”سحر ہونے تک “کے عنوان سے ابن انشا کے قلم سے ہونے والا ترجمہ بھی چھاپا، ابن انشا کے بقول، اس اشاعتی ادارے کی طرف سے شائع ہونے والی یہ پہلی کتاب تھی اور جب 1947ء کے ہنگاموں میں ”سنگم“ کا دفتر گاﺅ خورد ہوا تب تک کتاب کا ایڈیشن نکل چکا تھا۔ اس ادارے کے لیے ابن انشا کے جگری دوست حمید اختر نے بھی ”بے برگ وگیاہ “کے نام سے اگنات ہرمین کے ناولٹ کا ترجمہ کیا، جس کا سوروپیہ معاوضہ ملا تو حمید اختر کے بقول انھوں نے مہینہ ڈیڑھ مہینہ خوب عیش کی۔

\"Aikراجندر سنگھ بیدی کا قائم کردہ اشاعتی ادارہ فسادیوں نے برباد کردیا۔ صلاح الدین محمود کے بقول۔ ” پھرانھوں نے اپنا ایک ادارہ ”سنگم پبلشرز لمیٹڈ“کے نام سے نسبت روڈ پر قائم کیا۔ یہ ادارہ کافی کامیاب رہا۔ مگراب 1947ء کا عمل تھا۔ ہرطرف بلوے ہو رہے تھے۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بچوں کو روپڑ، اپنے بھائی کے پاس بھیج دیا اور خود لاہور ہی میں اپنے ماڈل ٹاﺅن کے گھرمیں مقیم رہے۔ جب ”سنگم پبلشرز لمیٹڈ“ کے دفتر اور گودام کو لوٹ کرجلا دیا گیا تو یہ ماڈل ٹاﺅن میں اپنا بھرا بھرایا گھرچھوڑ کرروپڑ چلے گئے اوروہاں سے اہل وعیال کے ساتھ مل کر اور اپنی جان کو انتہائی خطرے میں ڈال کر انھوں نے متعدد مسلمان گھرانوں کی جانیں بچائیں اور ان کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ “

 بیدی کی زبان پراعتراض بھی ہوتا رہا ہے جس کی وجہ بیانیہ میں پنجابی زبان کے اثرات بھی تھے۔ بیدی کا اس اعتراض پرنقطہ نظرتھا ”ایک پنجابی کا اپنا انداز ہے اردو میں لکھنے کا۔ یا تو ایسا ہے کہ میں لکھنو میں پیدا ہوا ہوتا، جس زمانے میں زبان کا گھر لکھنو یا دلی سمجھے جاتے تھے، میں بدقسمتی یا خوش قسمتی سے لاہور میں پیدا ہوگیا اور وہیں کا اثر میں نے قبول کیا۔ “گرم کوٹ، بیدی کا مشہور افسانہ ہے، اس کا سارا ماحول لاہور کا ہے اور یہ ایک طرح ان کی ذاتی زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے، انھوں نے خود ایک جگہ کہہ رکھا ہے ”ہم نے اپنے ہی لوگوں کے بارے میں لکھا ہے، اپنے مسائل کے بارے میں، بلکہ اپنی زندگی کے بارے میں، جسے آٹوبایوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں، مثلاً گرم کوٹ کو لیجیے۔ میں خود وہ کلرک تھا پوسٹ آفس میں جوکوٹ نہیں خرید سکتا تھا، اس لیے وہ چیز وہیں سے پیدا ہوئی “۔

 راجندر سنگھ بیدی لاہور سے چلے گئے مگر یہاں کی یادیں ساری زندگی ان کے ساتھ رہیں، پاکستان سے جو بھی ہندوستان جاتا، اس سے لاہور اوریارانِ شہر کے بارے میں کرید کرید کر پوچھتے۔

ان کے آخری برسوں میں ممتاز ادیب انتظارحسین کی ان سے دہلی میں ملاقات ہوئی، جس کا احوال انھوںاپنے سفرنامے ”زمین اورفلک اور“میں یوں قلمبند کیا ” بڑھاپے کی تباہ کاریاں دیکھنی ہوں تو راجندر سنگھ بیدی کو دیکھو۔ ایسا بڑھاپا آیا کہ ساری عمارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اصل میں یہاں بڑھاپا اکیلا نہیں آیا، بیماری کی کمک ساتھ لے کر آیا۔ عناصر میں اعتدال ختم ہے۔ چلنا پھرنا دشواری سے ہوتا ہے۔ لاہورکا حال احوال پوچھا پھرافسوس کیا کہ ڈاکٹر نذیر مر گیا۔

\"13295178_1066446006776694_396843140_n\"میں نے تعجب سے انھیں دیکھا:

”یہ آپ سے کس نے کہا۔ اپنے ڈاکٹرصاحب تو لاہورکی سڑکوں پر دوڑتے پھرتے ہیں۔ “

میرے کہے پرانھیں اعتبارنہیں آیا۔ پوچھا۔ ”آپ نے کب انھیں دیکھا تھا۔ “

”ابھی انھیں دنوں۔ انھیں دنوں انھوں نے مجھے گردے چانپ کھلائے ہیں۔ جتنا میں نے کھایا۔ اس سے زیادہ انھوں نے کھایا۔ کھاتے ہیں۔ قلانچیں بھرتے ہوئے چلتے ہیں۔ “

بیدی صاحب بولے:اچھا مجھے تو یہی خبر ملی تھی“چپ ہو گئے۔ شاید انھیں میرے کہے پرابھی تک اعتبار نہیں آیا تھا۔ “

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments