کیا فیمینزم کوئی بیماری ہے؟


میرے حلقہ احباب میں مجھے ایک فیمینسٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر کسی بھی ایسی پوسٹ پر جس میں فیمینسٹ خواتین یا فیمینزم کے خطرات پر بحث ہو رہی ہو، مجھے لازمی ٹیگ کر دیا جاتا ہے۔

نیا قصہ دو روز قبل ہوا۔ میرے ایک بہت عزیز دوست نے مجھے فیس بک میسنجر پر ایک تصویر بھیجی۔ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ فیمینسٹ برابری کے حقوق کی تو بات کرتی ہیں لیکن جب برابر کی ذمہ داریوں کی بات آتی ہے تو واپس پلٹ جاتی ہیں۔ آپ نے بھی یہ تصویر دیکھی ہوگی۔ گذشتہ دو تین روز سے سوشل میڈیا پر خوب گردش کر رہی ہے۔ ان صاحب کا میں بہت احترام کرتی ہوں۔ اگر آج میں اپنی زندگی میں کچھ حاصل کر پائی ہوں تو اس کے پیچھے ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ میں انہیں تو کچھ زیادہ نہیں کہہ سکی لیکن جب اگلے ہی روز ایک اور صاحب نے وہی تصویر ان باکس کی اور چند گھنٹوں بعد ایک رپورٹر نے اسی تصویر پر مبنی ایک پوسٹ میں مجھے ٹیگ کیا تو یہ بلاگ لکھنا لازم ہوگیا۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ فیمینزم کیا ہے۔ فیمینزم کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریہ ہے جس کے مطابق خواتین کے لئے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کا حصول اور ان کے لئے ملازمت اور تعلیم کے یکساں مواقع کو یقینی بنانا ہے۔ ہم اس نظریے کے تحت خواتین کے لیے وہ سب حقوق چاہتے ہیں جو ایک پدرسری معاشرے میں کسی بھی مرد کو حاصل ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس برابری کے نتیجے میں خواتین ہاتھوں سے نکل جائیں گی یا فحاشی کی طرف چل پڑیں گی تو آپ کا یہ خیال اس معاشرے کے مردوں کی موجودہ حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں ان کی وہ حالت ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں جب بھی مرد و خواتین کے برابری کے حقوق کی بات کی جائے تو آپ کے ذہن میں برابری کا وہ تصور نہ اٹھے جو اب اٹھتا ہے۔

جہاں تک ذمہ داریاں بانٹنے کی بات ہے تو دو پل کو اپنی عورتوں پر کیے جانے والے اپنے احسانات بھول جائیں اور پھر سوچیں کہ کیا آپ ان کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں یا وہ آپ کی ذمہ داریاں بانٹ رہی ہیں؟

آدمی پیسہ کما کر لاتا ہے لیکن نہ آپ اس پیسے میں رہتے ہیں، نہ اس پیسے کو کھاتے ہیں اور نہ ہی اس پیسے کو اوڑھتے ہیں۔ اس پیسے کو استعمال کر کے عورتیں ہی مکان کو گھر بناتی ہیں۔ ایک ایسا گھر جہاں آپ اور آپ کا خاندان سکون سے رہتے ہیں۔

جب آپ کام کر رہے ہوتے ہیں تب آپ کے پاس چائے یا کافی کا کپ بھی آپ کے گھر کی عورتیں ہی لا کر رکھتی ہیں لیکن جب وہ کام کر رہی ہوتی ہیں تب آپ کتنی بار جا کر ان سے پوچھتے ہیں کہ کہیں وہ تھک تو نہیں گئیں۔

یہ تو ایک دوسرے کا خیال ہے جو ابھی بھی ہم میں سے کچھ رکھتے ہیں لیکن اس مفت کی بیگار کا کیا جو ہماری خواتین جانے کب سے کرتی چلی آ رہی ہیں؟

ہمارے دیہاتوں میں خواتین کس محنت سے کھیتوں میں کام کرتی ہیں، یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کھیت مرد کا ہے لیکن اس کا بار عورت اٹھاتی ہے۔ فصل پکتی ہے تو مبارک باد مرد کو ملتی ہے اور عورت ایسا مرد ملنے پر شکر ادا کرنے چل پڑتی ہے۔

جو لوگ کھانے پکانے کے کاروبار سے منسلک ہیں کبھی ان کے گھر کا جائزہ لیں۔ ان کے کاروبار کا آدھے سے زیادہ کام ان کے گھر کی خواتین کرتی ہیں۔ چاول صاف کر دو، پیاز کاٹ دو، چٹنی بنا دو، مصالحہ بھون دو۔ کاروبار کہنے کو اُن کا، اس سے حاصل ہونے والی آمدن پر حق بھی اُن کا لیکن عورت کی محنت ’یہ تو اس کا فرض ہے‘ سمجھ کر وصول کی جاتی ہے۔

کتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں مرد آرام سے گھر بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی خواتین باہر مزدوری بھی کرتی ہیں اور گھر واپس آ کر گھر کے کام بھی نبٹاتی ہیں۔

آپ یہی دیکھ لیں کہ آپ کی عید کہاں گزرتی ہے اور آپ کے گھر کی عورتوں کی عید کہاں گزرتی ہے۔ جب آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مہمانوں کے ساتھ خوش گپیاں لگا رہے ہوتے ہیں اس وقت آپ کے گھر کی خواتین کچن میں کباب تل رہی ہوتی ہیں۔

کبھی آپ نے یہ سوچا کہ جس گھر میں آپ رہ رہے ہیں اس کو بنانے میں اس گھر کی عورت کا کتنا کردار ہے؟

سفید پوش طبقہ گھر ہی تب بنا پاتا ہے جب گھر کی عورتیں اپنا سونا لا کر گھر کے مردوں کے سامنے رکھتی ہے۔ یہی سفید پوش طبقہ اپنی بیٹی کی شادی تب کرتا ہے جب گھر کی بہو اپنا سالوں سے سنبھالا ہوا جہیز گھر کی بیٹی کے اچھے مستقبل کے لئے دان کر دیتی ہے۔ سالوں بعد یہی جہیز کسی اور بیٹی کو منتقل ہو جاتا ہے اور ان سب بیٹیوں سے منسلک مرد خوش ہو جاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری بٹ گئی۔

ہماری خواتین مردوں کی وہ ذمہ داریاں بھی اٹھاتی ہیں جو فرض تو ان کا ہیں لیکن اس کا حساب وہ اپنی بیویوں سے لیتے ہیں۔ آپ کے والدن کی ذمہ داری آپ پر ہے لیکن نبھاتا کون ہے؟ آپ کی بیوی۔ اگر آپ کے والدین بیمار ہوں تو آپ کی بیوی ان کی جی جان سے خدمت کرتی ہے لیکن اگر اس کے ماں باپ بیمار ہوں تو کیا آپ ان کی خدمت کرتے ہیں؟ آپ تو بیوی کو بھی وہاں ایسے بھیجتے ہیں جیسے اس کے خاندان کی سات پشتوں پر احسان کر رہے ہوں۔

گھر سے باہر جا کر جو خواتین کام کرتی ہیں ان کی تعداد صرف 24 فیصد ہے۔ جو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنا کرئیر نہیں بناتیں، ان میں سے کتنی ہیں جو اپنی مرضی سے یہ فیصلہ لیتی ہیں اور وہ کتنی ہیں جنہیں گھر والوں کی طرف سے منع کر دیا جاتا ہے۔ اس کا حساب کس کے پاس ہے؟

جو خواتین ہاؤس وائف بنتی ہیں، بظاہر تو ان کی زندگی بہت آرام دہ لگتی ہے لیکن حقیقت میں وہ اتنی ہی مشکل ہے۔ وہ دن سے رات تک کئی طرح کے کاموں میں لگی رہتی ہیں جو ذمہ داریوں کے زمرے میں ہی نہیں آتے۔

‘تم پورا دن کرتی ہی کیا ہو؟ ‘ یہ وہ جملہ ہے جو آپ میں سے بیشتر مردوں نے اپنی زندگی میں موجود کسی نہ کسی عورت کو کبھی نہ کبھی ضرور کہا ہوگا۔ اسی طرح بہت سی عورتوں نے یہ جملہ کئی بار سنا ہوگا۔ اب یہ غصے سے کہا جائے یا نرمی سے اس کا اثر ایک سا ہی ہوتا ہے۔

اب کبھی آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ فیمینسٹ برابری کے حقوق کی بات تو کرتی ہیں لیکن برابر کی ذمہ داریاں اٹھانے سے بھاگتی ہیں تو دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے گا کہ برابر کی ذمہ داریاں اٹھانے سے اصل میں کون بھاگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).