ہاسٹل کی زندگی (2)


کچھ عرصہ پہلے میں نے ہاسٹل کی زندگی پر ہم سب پہ ایک مضمون لکھا جو یو ای ٹی لاہور کے ہاسٹلوں میں میرے گزرے ہوئے ماہ و سال (1996ء سے 2000ء) سے متعلق تھا ۔ یہ مضمون کا فی پسند کیا گیا ۔ چند دوستوں نے شکوہ کیا کہ ابھی تشنگی باقی ہے اور اسی موضوع پر مزید قلم آرائی کی فرمائش کی ۔ چنانچہ دوستوں کی فرمائش پہ میں نے اس مضمون میں ہاسٹل کی زندگی کے چند مزید پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کو شش کی ہے ۔
فرسٹ ائیر میں میرے کمرے کے عین قریب ہی ایک بڑا چار نشستی کمرہ تھاجو کیڈٹ کالج حسن ابدال سے فارغ التحصیل طلباء کو الاٹ کیا گیا تھا ۔ اکثر اوقات اور ابدالینز بھی اس کمرے میں آ جاتے اور وہ کمرہ ایکس ابدالینز کے ڈیرے کی صورت اختیار کر گیا تھا ۔ البتہ اس ڈیرے میں پر شور موسیقی کے لیئے گلوکاراؤں کی بجائے ڈبل ایکس ایل اسپیکر اور رقاصاؤں کی بجائے ہالی وڈ اور بالی وڈ کی ہیرؤنز کی قد آدم تصویریں آویزاں تھیں ۔ تصویروں میں ان ہیروئنز کے لباس ان کے پوشیدہ اعضاء کو چھپانے کی بجائے اور نمایاں کر رہے تھے ۔ کیسٹ ڈیک پلیئر سے بھی ایسے گانے بجائے جاتے تھے جو نو جوان جذبات کو انگیخت دیتے تھے جیسا کہ ـجمعہ چما دے دے اور چولی کے پیچھے کیا ہے وغیرہ ۔
چونکہ انھیں ہاسٹل میں رہنے کا وسیع تجربہ تھا اس لیئے وہ کافی پراعتماد تھے ۔ اس کے برعکس میری حالت یہ تھی جیسے کوئی نیا جانور چڑیا گھر میں آگیا ہو ۔ جیسے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ویسے ہی ہمسائے کو دیکھ کر ہمسایہ رنگ پکڑ تا ہے ۔ اپنے ہمسا یوں کو دیکھ کرمیں نے بھی عیا شی کرنے کی ٹھانی ۔ موسیقی سننے کے لیئے ہال روڈ سے جا کرچائنہ جیبی ریڈیو لے آیا جس کی قیمت مبلغ ایک سو روپے تھی ۔ اس وقت ایف ایم نیا نیا متعارف ہوا تھاجس پر دن بھر موسیقی کے پروگرام نشر ہوتے تھے ۔ ایک پروگرام رات دس بجے نشر ہوتا تھا جس میں المیہ گانے اور پر آسوز غزلیں ہوتی تھیں اور کئی دل جلے اس پروگرام کے باقاعدہ سامع تھے ۔ میں بھی اس مرثیانہ شاعری سے دل جلانے لگا۔ کمرے میں سر عام دعوت گناہ دیتی شبیہیں لگانے کی ہمت تو نہ پڑی البتہ ایک موقر ہفت روزہ انگریزی شمارے نے جو میں خرید کے لایا ان تصویروں کی کمی کا فی حد تک پوری کر دی ۔ اردو شماروں کے برعکس اس میں حسیناؤں کی کا فی ہوش ربا اور revealingتصویریں تھیں ۔
اب کچھ بات لباس کی بھی ہو جائے ۔ ہاسٹل کے باسیوں کا پسندیدہ پہناوا ٹی شرٹ اور برمودا شارٹس تھیں ۔ اے سی کا ابھی ظہور نہیں ہوا تھا اس لیئے گرمی سے بچاؤ کے لیئے یہ لباس اکسیر تھا ۔ البتہ اس میں ستر کے کچھ مسائل در پیش ہوتے تھے ۔ اس لیئے میں نے ٹراؤزر کو ہی اپنایا تاکہ شرعی تقاضے پورے ہو سکیں ۔ لباس اور بودوباش کے چناؤ میں چند اور عوامل بھی کار فرما تھے جیسا کہ اساتذہ کی پسند اور نا پسند ۔ ایک صاحب جو ویسے تو کافی dandy تھے لیکن اگر viva لینے والے صاحب با ریش ہوتے تووہ شلوار قمیض اور شیو بڑھا کر viva دینے پہنچ جاتے ۔
ہا سٹل میں علاقائی اور سیا سی جماعتوں کے علاوہ مذ ہبی تنظیموں کا بھی کا فی اثر و نفوذ تھا ۔ مثلاََ امامیہ سٹوڈنٹس ارگنائزیشن ، سلفیہ رائزنگ انجنیئرز، دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت وغیرہ ۔ تبلیغی جماعت کا زیادہ زور فروعی اختلافات کی بجائے عبادات پر ہو تا تھا۔ عموماََ یہ لوگ شام کو گشت پر نکلتے اور باقی لوگوں کو بھی سا تھ چلنے کی دعوت دیتے ۔ سست اور بے نماز اپنے کپڑوں کی نا پاکی کا عذر پیش کرکے ان سے معذرت کرتے ۔
شاپنگ کے لیئے ہاسٹلز سے روزانہ تین بسیں انار کلی اور ایک بس لبرٹی جاتی تھی ۔ ان مارکیٹس میں دو شیزاؤں کی توجہ کا مرکز رنگ برنگے ملبوسات، جوتے اور زیورات ہوتے تھے اور نوجوانوں کی توجہ کا مرکز رنگ برنگی کنیائیں ہوتی تھیں۔ نوجوان اقبا ل کے اس شعرکا عملی مظاہرہ پیش کرتے نظر آتے تھے کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ اور وہ ہر رنگ کشید کرنا چاہ رہے ہوتے تھے ۔
ایک ہاسٹل صرف غیر ملکی طلباء کے لیئے مخصوص تھا۔نیپال کے مسٹر تھاپا کے نوٹس بڑے مقبول تھے۔ وہ اپنی کلاس کا ٹاپر بھی تھا ۔ عرب طلباء کا مقبول کھیل ہمارے برعکس فٹبال تھا۔ وہ بوقت نمازکھیل کے درمیان وقفہ کر کے گراؤنڈ میں جوتوں سمیت ہی سر بسجود ہوجا تے جو ہم پاکستانیوں کے لیئے با عث تعجب تھا ۔
ہاسٹل کی زندگی تو ختم ہو گئی لیکن اپنے پیچھے بیش بہا یادیں چھوڑ گئی ۔ آج ان ہاسٹلوں میں رہنے والے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ملک کی ترقی میں باالواسطہ یا بلا واسطہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).