سکردو روڈ پر مقامی ٹرانسپورٹ کے حادثے کیوں ہوتے ہیں؟


گلگت سے سکردو کا روڈ ایک سو اڑسٹھ کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ یہ قرام قرم ہائی وے کے بعد گلگت بلتستان کی سب سے خطرناک اور دشوار گزار سڑک سمجھی جاتی ہے۔ گلگت سے سکردو پہنچنے کےکیے کم از کم آٹھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اور یہ سفر بہت ہی مشکل اور تکلیف دہ ہے۔ سکردو روڈ پر گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ ہونا معمول بن گیا ہے۔ گذشتہ دنوں بھی روندو کے قریب ایک مسافر گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی جس میں پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ اس سڑک پر پہلے بھی درجنوں حادثے پیش آئے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

ان حادثات کی کیا وجوہات ہیں کیا اس پر کسی نے سوچا ہے، کیا ان حادثات کی کوئی تحقیقات بھی ہوتی ہیں تو شاید جواب نا میں ہی ہوگا۔ بس ہر کی زبان پر یہ بات عام ہے کہ سکردو روڈ خطرناک ہے، لیکن ایسا ہر گز نہیں یہ سڑک ان لوگوں کے لئے خطرناک نہیں جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے سیاحت کی عرض سے پہلی بار آتے ہیں تو ان لوگوں کے لئے کیون خطرناک ثابت ہوتی ہے جو سالوں سال اس پر سفر کرتے ہیں۔

جولائی کا پہلا ہفتے سکردو سے گلگت کے لئے ٹکٹ لینے ایک ٹرانسپورٹ کمپینی کے دفتر پہنچا، صبح آٹھ بجے کا ٹکٹ ملا اور پوچھنے پر منشی صاحب نے بتایا کہ آٹھ بجے ہائی روف جائے گی۔ جب صبح سویرے وہاں پنچا تو دیکھا سامنے ایک کھٹارا ہائس کھڑی نظر آئی، منشی نے بتایا کہ یہی گاڑی جائے گی۔ اب جھگڑا کرنا مسئلے کا حل نہیں تھا تو اللہ کا نام لے کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جب ہم نے گمبہ کراس کیا تو گاڑی کے شیشے بجنا شروع ہوگئے، جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا ہماری تکلیف میں بھی اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک میوزک کی جگہ کان کے قریب گاڑی کے شیشہ بجتے تھے اور گاڑی کے مختلف حصوں سے مختلف قسم کی آوازیں آرہی تھی جو مل کر ایک ایسی میوزک کی شکل اختیار کی تھیں جو تکلیف میں اضافہ کرنے لے لئے کافی تھیں۔

دوسرا یہ کہ سیٹوں پر فوم نام کی کوئی چیز نہ تھی، پھر بھی ہم نے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں بس خیریت سے اپنے منزل پر پہنچ جائے۔ جب ہم استک نالہ سے گلگت کی طرف ایک خطرناک پہاڑی پر پہنچے تھے تو دیکھا آگے گاڑیوں کی لائنیں لگی ہے پتہ چلا کہ مخالف سمت سے آنے والا ایک ٹرک نے گاڑیوں کی روانی متاثر کر رکھی ہے تو تھوڑا وقت لگ سکتا ہے، جس پر ہمارے ڈرائیور نے بھی گاڑی کا انجن بند کردیا۔ جب روڈ کھل گیا تو اول تو بڑی مشکل سے گاڑی کا انجن سٹارٹ ہوگیا اب گاڑی آگے چل نہیں رہی، کسی ایک سواری نے کہا چلو استاد کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا بریک نے کام چھوڑ دیا ہے صاحب، جس پر سواریاں اتریں، ڈرئیور نے اپنی تسلی کے بعد بتایا کہ گاڑی کا یہاں ٹھیک کرنا ممکن نہیں، سواریاں اپنے لئے کسی دوسری گاڑی کا بندوبست کریں ورنہ ان کا وقت ضائع ہوگا۔

جس پر راقم نے پوچھا کہ آپ اس طرح کی کھٹارا گاڑیاں کیوں چلاتے ہو اس خطرناک سڑک پر تو کہنے لگا صاحب مالک بولتا ہے چلاؤ ہم غریب لوگ ہیں صاحب اپنا مزدوری کرتا ہے۔ یقیناً ان غریب لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے جو چند ہزار کے لئے نوکری کرتے ہیں۔ ، قصور تو ان ٹرانسپورٹروں کا ہے جو اس طرح کی کھٹارا گاڑیوں کو اتنے لمبے روٹ پر چلا کر انسانی قیمتی جانوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

ان سے بھی زیادہ ذمہ داری متعلقہ ادارہ محکمہ ایکسائز انیڈ ٹیکسیشن کی بنتی ہے جن کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ وہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کرے جو گاڑی اس روڈ پر چلنے کے قابل ہے اس کو سرٹیفیکیٹ دے، اور جو گاڑی کھٹارا ہے ان پر پابندی لگادی جائے۔ گلگت بلتستان میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا ادارہ بن چکا ہے تمام اضلاح میں ان کی اعلی شان دفاتر قائم ہیں، لیکن کارکردگی صفر ہے۔

گلگت بلتستان میں پبلک کے لئے کھٹارا گاڑیاں چلائی جاتی ہیں۔ یہ گاڑیاں یا تو محکمے کی ملی بھگت سے چلتی ہیں یا پھر محکمے کو اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس نہیں ہے۔ سکردو روڈ کا شمار خطرناک شاہراہوں میں ہوتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں، لیکن لوکل گاڑیاں اس لئے حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں کہ اس روڈ پر خاستہ حال گاڑیوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس روڈ پر ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں کی گاڑی گزرتی ہیں لیکن حادثے کا شکار نہیں ہوتی ہیں کیونکہ ان کی گاڑیاں فٹ ہوتی ہیں ان کا فٹنس چیک کیا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں کوئی ایسا نظام نہیں کہ گاڑی کی فٹنس چیک کر کے اس کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

ٹرانسپورٹروں کی لالچ اور متعلقہ ادارے کی غفلت کی وجہ سے کہی لوگ اس روڈ پر لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ محکمہ ایکسائز گلگت بلتستان کے تمام اضلاح میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ اور پرائیوٹ گاریوں کی فٹنس چیک کریں اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان شاہراہوں پر چلنے والی تمام گاڑیاں پوری طرح فٹ ہو، ہر ایکسیڈنٹ کی مکمل تحقیقات ہو اور بتایا جائے ان حادثات کے ذمہ دار کون ہے۔ تاکہ آئندہ انسانی قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).