وہ دن جب میں کاری ہونے سے بچی


زندگی نے میرے دکھوں کو ضرب دے کر مجھے بہت تقسیم کیا۔ قدم قدم پر میری ذات کی نفی کی گئی۔ جمع و تفریق کی اس زندگی میں الجھ کر بھی میں آج تک وہ ایک دن نہ بھول سکی جب سندھ کی قدیم رسم کاری کی کالی تاریخ میں میرا خون شامل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ وہ دن جب خاندان کے کرتا دھرتا دو طاقت ور مردوں نے بند کمرے میں مجھے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنا یا، مجھ پر نفرین بھیجی اور میرا فیصلہ تبدیل کروانا چاہا۔

گلے میں خاندان کی قدیم روایتوں کا پٹہ مزید پہننے سے انکار پر گن لوڈ کر کے میرے ماتھے پہ رکھ دی گئی۔ اس وقت خوف سے میری آنکھیں بند اور جسم کانپ رہا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی کی سنسناہٹ آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ موت سامنے رقص کر رہی ہو تو جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بھی جھکنے سے انکار کردیا۔ لہذا طے ہوا کہ اب میرا خاتمہ ہی خاندانی آن بان کو بکھرنے سے بچا سکتا ہے۔ مجھے مار ڈالنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ میرا انجام دیکھ کر خاندان کا کوئی دوسرا لڑکا یا لڑکی بڑوں کے فیصلوں کے سامنے آواز اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔ خدا نے موت کا وہ وقت ہی مقرر نہ کیا تھا، اس لیے تقدیر کے زورپر میں نہ صرف قید سے آزاد ہوئی بلکہ اپنے پیارے شہر کراچی بھی لوٹ آئی۔

اس حادثے نے مجھے اٹھارہ سال کی عمر میں ہی زندگی کا بڑا سبق سکھا دیا۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا سبق۔ اس سبق کو سیکھنے کے لیے مجھے ہر محاذ پہ تنہا لڑنا پڑا۔ چھے سال خانہ جنگی جھیلی۔ جنگ اس لیے نہیں تھی کہ مجھے کسی سے طوفانی عشق تھا، ہاں ایک سرد پڑتا دم توڑتا ہوا وقتی جنون ضرور تھا۔ لیکن مجھے اس جنگ کا اختتام کرنا تھا۔ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے پیچھے قطار میں کھڑے خاندان کے ان بچوں کے لیے جو خاندانی رسموں سے سہمے ہوئے تھے۔ وہ رسمیں جن کی چکی میں پسنے والے کتنے ہی کملائے ہوئے چہرے میری یادداشت میں اب تک محفوظ ہیں۔

یوں ایک مرد کے زندگی میں آنے کی دیر تھی کہ محبت کی آگ کم بلند ہوئی بغاوت کے شعلے زیادہ اٹھے۔ گرچہ میں بھی بدنام ہوئی اور لفظ محبت بھی رسوا ہوا۔ لیکن آج، اٹھارہ ہی سال بعد میں بہت پرسکون ہوں کہ ایک میری زندگی کے بخیے ادھڑنے سے کتنے ہی ٹانکے سنور گئے، کتنی ہی زندگیاں امن میں آئیں۔ میرے بعد کتنی ہی خاندان کی لڑکیاں دلہنیں بنیں تو دل سے مسکرائیں۔ کتنے ہی لڑکوں کی آنکھوں میں نئی زندگی شروع کرتے وقت حقیقی مسرت کے دیپ جلے۔ یقین کیجیے ایک میرے سواکوئی نہیں بکھرا۔ سب آباد اور دل شاد ہوئے۔

سب سے زیادہ خوشی تو مجھے اس وقت ہوئی جب میرے قتل کا منصوبہ بنانے والے خاندان کے دو بزرگوں میں سے ایک نے پچھلے دنوں اپنے بیٹے اور بیٹی کے سالوں سے طے کردہ رشتوں کو توڑ کر بچوں کی پسندکو خوشی خوشی قبول کرلیا۔

خاندان مٰیں اس وقت ہر ایک کی زبان پر یہی ہے کہ جو سالوں پہلے میرے ساتھ کیا گیا یہ اس کا مکافات عمل ہے کہ ان کے اپنے بچوں نے خاندانی فیصلوں کو مسترد کردیا۔ اب نہ گن نکلی اور نہ طمانچے پڑے۔ خوشی خوشی سارے کام ہوگئے۔ اپنی اولاد اور پرائی میں ایک یہی تو فرق ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو خاندان والوں کی باتوں سے میں ملول نہیں بلکہ بہت خوش ہوں۔

کسی کو تو ابتدا کرنی تھی۔ وقت کسی کے ہاتھوں تو بدلنا تھا۔ اس کام کے لیے قدرت نے میرا انتخاب کیا، مجھے ذرا بھی افسوس نہیں۔ اگر چہ اس خانہ جنگی میں، میں افغانستان کی طرح برباد ہوئی۔ عراق کی طرح میں نے اپنے حمایتی کھو ئے۔ شام کی طرح بم باری سہی۔ یمن کی طرح اوروں کے رحم وکرم پر رہی۔ فلسطین کی طرح غیر تسلیم شدہ تو اب تک ہوں۔

لیکن خوش ہوں۔ جیسے عشق کی تاریخ رقم کرتے ہوئے پیرس ہیلینا کا تذکرہ لازمی کیا جاتا ہے، سائنس کا احوال ایڈیسن کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، سیاست کی بات ہوتے ہی نیلسن منڈیلا کا ذکر کیا جاتا ہے، انسانیت عبد الستار ایدھی کے بنا نامکمل سمجھی جاتی ہے ایسے ہی جب کوئی میرے خاندان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو مجھے کسی طور فراموش نہ کر سکے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے میں وہ دن فراموش نہیں کر پاتی جب میں کاری ہونے سے بچی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).