ایک عورت ظلم کی سو کہانیاں


\"rashid-ahmad-2w\"

کچھ عرصہ قبل زمانہ طالبعلمی میں (گو یہ زمانہ ہنوز جاری وساری ہے) میرا یہ ماننا تھا کہ ہمارے ہاں خواتین پر ہونے والے مظالم کے باب میں مبالغہ آرائی کو حقیقت حال سے زیادہ دخل ہے مگر جب سے عملی زندگی کی جاں سوز حقیقتوں سے واسطہ پڑا ہے تو میں علی وجہ البصیرت یہ بات لکھ رہا ہوں کہ عورت پر ہونے والے مظالم اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جتنا ہمارےہاں بیان ہوتا ہے۔ عورت چاہے جس مرضی طبقہ زندگی سے ہو اس کی حیات گوناگوں مشکلات سے دوچار ہے لیکن اگر عورت ناخواندہ اور پسماندہ علاقہ کی ہو تو اس پر ہونے والے مظالم اسی حساب سے زیادہ ہوں گے کہ نہ تو اس بیچاری کے حق میں کوئی آواز اٹھائے گا اور نہ ہی اس کی کہیں شنوائی ہوگی۔ وہ ساری زندگی سسک سسک کر گزار دیتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ زندہ درگور ہوجاتی ہے اور یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دینے والے امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ ہر گز نہیں ہوتے بلکہ اس کے اپنے عزیز رشتہ دار اور خاندان والے ہوتے ہیں۔ عورت کے معاملہ میں ہمارے ہاں خون کے رشتے بھی سفید ہوجاتے ہیں۔

اندرون سندھ کے معاشرے میں جہالت کی بعض ایسی ایسی کمال داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ الامان الامان۔ خواتین کا معاملہ تو زیادہ ہی نازک ہوتا ہے لیکن سندھی معاشرہ میں اب شاید عورت کے لئے زیادہ عزت واحترام باقی نہیں رہا۔ اس پر ہونے والے مظالم شاید دور موجود میں سب سے زیادہ ہیں۔

بعض رسائل میں تین عورتیں تین کہانیاں کے عنوان سے کہانیاں شائع ہوتی ہیں لیکن یہاں تو ایک عورت سو کہانیاں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔ ساجدہ کی شادی کو بیس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ شادی کے دوسرے دن سے لے کر آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اس کا بدن مشقت و محنت اور طعن وتشنیع سے چور نہ ہوا ہو لیکن وہ ایک بے زبان جانور کی طرح اپنے کاموں میں جتی رہی۔ نہ شکوہ نہ شکایت۔ نہ مظلومیت کا کوئی رونا نہ مجبوری کی کوئی داستان۔ وہ بس اپنے کام میں جتی رہی۔ تین بچے بھی پیدا ہوئے جو صاحب اولاد ہیں۔ بالوں میں چاندی اتر آئی۔ بدن بے بس ہوگیا۔ مزید مشقت کی سکت نہ رہی۔ لیکن وہ شوہر جس نے اس کا خیال رکھنے اور اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کا عہد کیا تھا یوں لا تعلق ہوگیا گویا کہ وہ اس کو جانتا ہی نہیں۔ علاج کرانے اور دوا دارو کا خرچہ اٹھانے سے سرے سے ہی انکار کردیا۔ لوگوں نے سمجھایا تو دشنام طرازی پر مائل ہو گیا۔

ساجدہ بیچاری نے خود ہمت کی۔ کسی کی خوشامد کی تو کسی کی منت کی ۔ کسی نے سو روپے دیا تو کسی نے پانچ سو۔ چندہ کرکے بیچاری شہر پہنچی کہ اپنا علاج کروا سکے۔ اللہ بھلا کرے ہسپتال والوں کا کہ انہوں نے مفت علاج کا بیڑہ اٹھایا۔ حالت سنبھلی۔ جان میں جان آئی۔ سانسیں بحال ہوئیں۔ میاں کو خبر پہنچی تو فون کرکے گالیاں دینا شروع کردیں کہ ’گھر آکر مرو۔ گھر کے کام تمہارا باپ کرے گا؟ اپنا گھر چھوڑ کر تم وہاں شہر میں عیاشی کررہی ہو‘۔ ساجدہ بیچاری مرتی کیا نہ کرتی۔ علاج درمیان میں چھوڑ کر وہ شوہر کے گھر پہنچی ۔ بے حیا شوہر کی انا کی تسکین ہوئی، مگر بیماری کا جن چونکہ بوتل میں پوری طرح قید نہیں ہوا تھا اس لئے اب کے اس نے پوری شدت سے حملہ کیا ۔

ناتواں جان بے حال ہوگئی۔ نہ مناسب خوراک نہ ادویات۔ ساجدہ لمحہ بہ لمحہ گھلتی رہی۔ میاں نے بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علاج کروانے سے انکار کردیا کہ مرتی ہے تو مرے مجھے پرواہ نہیں، میں اس کا علاج نہیں کرواؤں گا۔ قبل اس کے کہ ساجدہ کی سانس اکھڑتی اللہ کے ایک نیک بندے نے اسے دوبارہ ہزار مشکلات جھیل کر شہر پہنچایا مگر کمزوری اور بیماری نے پانچ فٹ کی ساجدہ کو دو فٹ کے بچے میں بدل دیا ہے۔ جسم سوکھ گیا ہے۔ کھانا کھایا نہیں جاتا۔ پانی پی نہیں سکتی۔ ڈاکٹر کہتے ہیں خوراک کی نالی سکڑ کر بند ہوگئی ہے۔ اس کا مفت علاج ہم نہیں کر سکتے۔ دوائی کے پیسے نہیں۔ علاج کی اوقات نہیں۔ کھانا کھانے کے قابل رہی نہیں۔ جہاں علاج ہوسکتا ہے شاید وہاں تک ساجدہ شاید کبھی پہنچ نہ پائے۔ ہسپتال کے ایک کونے میں بیڈ پر لیٹی لمحہ لمحہ عذاب جھیلتی اداس ساجدہ کیا سوچتی ہوگی یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگر جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے کہ ہم ایسی ساجداؤں کو نہ بے لگام مردوں سے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی باعزت زندگی دے سکتے ہیں۔ مذہبی ٹھیکداروں کو تحفظ خواتین بل سے اپنی دکانداری بند ہوتی نظر آتی ہے تو چیختے چنگھاڑتے ہیں مگر عورت پر ہونے والے مظالم پر ان کا منہ نہیں کھلتا۔ حکمران معدہ چیک کرانے کے لئے بھی لندن پیرس سے اِدھر نہیں رکتے۔ ایسے میں ساجدہ جیسی عورتوں کو چاہئے کہ وہ خاموشی سے مر جائیں۔

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments