پری پیڈ میٹر۔۔۔۔۔۔نان ڈیجیٹل عوام



’’ ابے یار بس تو دیکھ تیرا جگر تیرے لئے کیا کرتا ہے ۔ایک بار اپنے بھائی کو حکومت میں آلینے دے پھر دیکھنا گنے کے کھیت میں چنے بھی اْگنے لگیں گے،چاولو ں کی فصل بغیر پانی کے لہلہائے گی،،
یہ بات اس نے نجانے کس بے اعتمادی سے کہی تھی ۔ مگر کوئی لمحہ قبولیت تھا ۔ دعا سیدھی ساتویں آسمان ہی پہ جا کر لگی ۔
’’یار تو اپنا وعدہ بھول گیا ناں،،
یہ کیسے ہو سکتا ہے، بس یار ذرا اسمبلی کے رولے نمٹا لیں ، تو آتا ہو ں تیری طرف بھی۔ تو بس تیاری کر، برے بجٹ کی ۔ سونے کی کان میں جانے کے لئے سونے کا ہونا پڑتا ہے۔ تو بس فیکٹری میں کام شروع کروا دے۔ ہمیں وقت پہ سب کام مکمل کرنا ہے ۔ترقی یافتہ ملکو ں کی طرح۔ سمجھ گیا ناں،،
’’بے فکر رہ ۔ تو حکم کر بس،،
یاری مے خانے کی تھی ، بے وفائی کا تو جواز و سوال ہی نہیں تھا۔
سب تیاریاں مکمل کروا لی گئیں ۔ اب yes sir والی مخلوق کی میٹنگ بلانا باقی رہ گئی تھی ۔ میٹنگ بھی ہو گئی ۔اس مخلوق کو yes sir سے زیادہ گرائمر و ڈکشنری نہیں پڑھائی جاتی کہ کہیں ان کی ذہانت میں مزید اضافہ نا ہو جائے۔ان کے تو بیڈ رومز کے پاس سے گزرتے ملازم بھی yes sir کی آواز سن کر ، مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا انہو ں نے اپنا مخلوقی فرض نبھایا۔
یوں سب کاغذات پہ دستخط ہو ئے۔ اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
فلم کے نئے ڈائیریکٹر نے کہا سر یہ تو پرانی کہانی ہے ۔ عوام میں مقبو ل نہیں ہو گی۔ تو کسی نے تجو یز پیش کی کہ ’’پرانے قابل اعتبار ہیرو سے ہی یہ کردار ادا کروایا جائے۔ تو مقبول ہو جائے گی۔ یہ جاہل ہی نہیں، بے دماغ قوم ہے۔ جن کی آنکھو ں پہ چمک کی پٹی بہت جلد بندھ جاتی ہے۔ بے فکر رہو ۔یہ کام ببلیسٹی والو ں کا ہے ۔
یوں یہ فلم ریلیز کر دی گئی۔
فلم کو بہت چمک دمک کے ساتھ پیش کیا گیا ۔ جس میں کہانی نہیں تھی ، بس کردار ہی کردار تھے ۔ جو خود بوکھلائے بو کھلائے ہو ئے تھے۔ مگرچمک دار تھے۔
لیجئے جناب سننے میں آرہا ہے فلم پاس ہو گئی ۔ خوب خوشامد کے لڈو بانٹے جا رہے ہیں ۔ پبلسٹی والے اپنا کام مسلسل کر رہے ہیں۔
مگر یہ کیا ہوا ۔ ہم تو ترقی پذیر ملک ہیں ۔ کسی کے گھر اگر رات کو بجلی نہیں ، بل ادا کرنے کے پیسے نہیں، تو ہمسایہ اپنے میٹر کی تار بانٹ لیتا ہے کہ گرمی کی تپتی رات یا دوپہر میں بزرک لوگ آرام سے سو جائیں۔ دعائیں ہی دیں گے۔ ارے یہ کیا جنازہ گھر میں رکھا ہے کفن دفن کا انتظام ہو رہاہے۔ میٹر کا کارڈ ختم ہو گیا ۔ پیسے کم ہیں ، کوئی بیمار ہے، کسی کا کل پرچہ ہے، کسی کی بچے بچی کی شادی ہے۔ ہم غریب لوگ تو سب مل بانٹ کے کر لیا کرتے تھے۔ اب ہم بھی امیر ہو گئے ہیں ۔ بجلی بھی اپنی اپنی، رشتے بھی اپنے اپنے ، بزرگ بھی اپنے اپنے ،احساس بھی اپنا اپنا ، محبت کی تو گنجائش ہی نہیں رہی۔کہ یہ بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ موت سستی ہو گئی ہے۔ مر جانا ہی بہتر ہے۔ آئیے منصور حلاج ہو جاتے ہیں کہ
’’ یکتا کی دوستی بھی یکتا کر دیتی ہے،،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).