کیا کرتار پور کا کوریڈور کھل پائے گا؟


سکھ پنتھ کے بانی بابا گرو نانک دیو جی، دیسی یا سکھ کیلینڈر کے مطابق کاتک کی پورن ماشی (پورے چاند کی رات )1469ء کی رات تلونڈی واقع موجودہ ننکانہ صاحب میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری میں گورمکھی پنجابی اور سنسکرت اور بعد ازاں فارسی اور عربی سیکھی۔ بابا جی نے شروع ہی سے بت پرستی اور ظاہری توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھائی۔ توحید کا پرچار کیا ،اور ہندو مذہب میں در آنے والے غلط رسوم و رواج کی مخالفت کی۔ آپ کا پیغام اللہ اور اس کی مخلوق سے محبت برابری اور بھائی چارے کا رہا۔ اور ساری عمر اسی بات کی تبلیغ کی۔ شرک کے سخت خلاف تھے۔

سکھ دھرم میں آپ سمیت کل دس گرو ہو گزرے ہیں۔ ان میں پہلے گرو اور سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک جی دیو جی،گرو( بھائی لہنا) انگد دیو جی، امرداس جی،رام داس جی،ارجن دیو جی،ہر گوبند سنگھ،ہر رائے جی،شری ہر کشن جی،تیغ بہادر جی اور دسویں اور آخری گرو گوبند جی،شامل ہیں۔

بابا جی اور گرووں کے فرمودات اور تعلیمات جن کو باہنی کہا جاتا تھا۔ ان کو پہلے پانچ گرووں اور پھر نویں گرو تیغ بہادر جی نے جمع کیا، اور آخری گرو گوبند جی نے اس پورے خزینے کو گرو گرنتھ صاحب کی شکل میں مدوّن کیا۔سکھ مذہب میں ان گرووں کے علاوہ پندرہ بھگت بھی ہو گزرے ہیں۔ جن میں بھگت کبیر اور بابا غلام فرید بھی شامل ہیں۔ کچھ بھگتوں کی باہنیاں بھی گرو گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔ ہر سکھ دھرم کے ماننے والے پر پانچ اہم اور مخصوص باہنیاں روز سویرے پڑھنا ضروری ہیں۔رات ڈھائی بجے سے صبح سات بجے تک کا وقت ان کے نزدیک عبادت کے لئے افضل ہے ، کہ اس وقت رب اپنے بندوں کی بات سننے کے لئے دھرتی پر اتر آتا ہے۔ گردوارے میں پاٹھی گرنتھ صاحب کا پاٹھ کرتے ہیں۔ پاٹھی کے لئے ضروری ہے کہ وہ سکھ شعائر کی پابندی کرنے والا ہو کرپان لگائی ہو داڑھی کو نہ کاٹتا ہو نہ رنگتا ہو اور نہ ہی باندھتا ہو۔ اس کے علاوہ جو ہارمونیم اور طبلے کے ساتھ گا کر گرنتھ صاحب پڑھتا ہے اسے راگی کہتے ہیں۔ ان سب کے لئے ضروری ہے کہ وہ غسل کر کے پاک صاف ہو کر اور سر ڈھانپ کر گردوارے آئیں۔

بابا جی گرو نانک جی نے اپنی تعلیمات کی دعوت اور تبلیغ کے لِے چہار سمت چار سفر کئے۔ اور اپنے چوتھے سفر میں مکہ مکرمہ اور بلاد عرب بھی گئے۔ ان مقدس اسفار سے واپسی پر لاہور سے ہوتے ہوئے ننکانہ اور پھر آخر کار کرتار پور تشریف لے آئے۔ راوی کنارے یہ جگہ لاہو سے کوئی 120 کلومیٹر دور ہے۔

بابا جی 1519ء میں کرتار پور پہنچے اور اپنی رحلت 1539ء تک اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال یہاں قیام کیا۔ آپ نے یہاں کھیتی کی اور باقی وقت اللہ کی یاد اور اپنی دعوت و تبلیغ میں گزارا۔ صحیح معنوں میں اسی مقام پر اول اول سکھ پنتھ کی بنیاد رکھی گئی۔

آپ کے مریدوں میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے لوگ یہاں آپ کی خدمت میں موجود رہتے۔

جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کے ہندو اور مسلمان مریدوں میں آپ کی آخری رسومات کو لے کر تنازع پیدا ہو گیا۔ مسلمان آپ کو دفنانا چاہتے تھے اور ہندو آپ کی آخری رسومات کو ہندو دھرم کے مطابق ادا کرنا چاہتے تھے۔ بابا جی کے دو بیٹے اس موقع پر موجود تھے۔ بابا جی کی آخری رسومات ان کی منشاء کے مطابق ادا کی گئیں۔

سکھ تاریخ میں اس واقعے کو بابا جی کی چادر دو حصوں میں تقسیم کرنے کے مترادف جانا گیا ہے۔

بابا جی نے اپنی کسی بھی یادگار یا سمادھی بنانے سے منع کیا تھا۔ لیکن ان کے بیٹوں نے ان کی سمادھی بنا دی اور روایات کے مطابق مسلمانوں نے ان کی ایک قبر بنا دی۔ بعد ازاں راوی کے سیلاب نے ان دونوں نشانیوں کو مٹا دیا۔

کرتار پور کے گردوارے کی موجودہ عمارت کی تعمیر مہاراجہ بھوپندر سنگھ والی ریاست پٹیالہ نے کروائی۔ان کے پوتے امریندر سنگھ اب موجودہ بھارتی ریاست پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں یہ جگہ پاکستان ہندوستان بارڈر سے محض ساڑھے تین کلومیٹر دور پاکستانی ضلع نارووال میں دریائے راوی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔1995ء میں پاکستانی حکومت نے اس تاریخی گردوارے کی مرمت کروائی 2000ء میں حکومت پاکستان نے بھارتی حکومت کو یہ تجویز دی کہ سکھ یاتریوں کے لئے یہ لاہنگا یا گزر گاہ (کوریڈور) ایک پل بنا کر کھول دی جائے تاکہ ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر سکھ پنتھ کے لوگ اپنی اس انتہائی اہم اور مقدس عبادت گاہ کی بلا روک و ٹو ک زیارت کر سکیں۔

لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی گرمجوشی نہی دکھائی گئی 2004ء میں پاکستان گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کی کوششوں سے اس گردوارے کی تزئین و آرائش کر کے اس کو دوبارہ سے عام یاتریوں کے لئے کھول دیا گیا۔
مئی 2007ء میں بھارتی پارلیمان کی سٹینڈنگ کمیٹی نے باضابطہ طور پر دونوں ملکوں کے خراب تعلقات کی وجہ سے اس کوریڈور کو دوبارہ کھولنے کی تجویز کو ناقابل عمل قرار دے دیا۔

البتہ بارڈر کی بھارتی سائیڈ پر ڈیرہ بابا نانک جو کہ سرحد کے ڈیڑھ کلو میٹر کےاندر بھارتی ضلع گورداس پور میں واقع ہے۔ وہاں پر ایک اونچے ٹیلے پر چند دور بینیں لگا کر اس طرف کے سکھوں کی اشک شوئی کی ناکام کوشش کی گئی۔اب اس مقام پر سکھوں کی کثیر تعداد اپنی اس انتہائی مقدس جگہ کے درشن کرنے روز آتی ہے۔ اور اگر موسم صاف ہو تو ان کی خوش نصیبی، دورطسے گوردوارے کے سفید گنبد ہلکے سے نظر آ جاتے ہیں۔ نہی تو وہی سے انکھوں میں آنسو بھر کر درشن کی آس لئے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے پاکستان سے سکھوں کی قربت کے اندیشے اپنی جگہ پر، لیکن کیا انسانی ہمدردی کے ناطے ہی سہی سکھوں کا یہ حق نہی بنتا کہ ان کو ان کی مقدس جگہوں پر جانے دیا جائے۔

اب 2019 ء میں بابا گرو نانک جی کا 550 واں سن پیدائش ہے جس کو وہ پرکاش پورب کہتے ہیں۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو بھارتی سابقہ کرکٹر اور حالیہ ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو جو بھارت میں سے ہر طرح کی مخالفت جھیل کر ،ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شامل ہونے کے لئے پاکستان آئے تھے ،کرتار پور کا کوریڈور کھولنے کی خوشخبری دے دی ہے۔پر اصل مشکل تو بھارتی حکومت کا رویہ ہے۔ لگتا نہی کہ مرکز میں برسر اقتدار ہندو انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اس معاملے پر غور کرے گی۔جبکہ مرکز میں اب الیکشن اس کے سر پر ہیں۔ ایسے میں وہ پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیل کر اپنے ہندو ووٹروں کو رام کرنے کی ذیادہ کوشش کریں گے۔ لیکن ہماری دعائیں، کوششیں اور نیک تمنائیں تو اپنے سکھ بھائیوں کے ساتھ ہیں۔اور امید کرتے ہیں کہ ایک دن ان کو ان کا حق مل کر رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).