مندر کی بلی بھگوان سے نہیں ڈرتی


\"aliہر ایک بھگوان سے ڈرتا ہے لیکن ایک کہاوت کہتی ہے کہ مندر کی بلی بھگوان سے کبھی نہیں ڈرتی۔ اس کی بے خوفی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ صرف بھگوان کے لیے رکھا دودھ پی جاتی ہے بلکہ اس کی مورتی کے تقدس کا بھی خیال نہیں کرتی جس کے درشن کے لیے لوگ جانے کہاں کہاں سے آتے ہیں۔

وہ مورتی کے سامنے اکڑ کر پھرتی ہے اور یوں گذر جاتی ہے بھگوان کی مورتی نہ ہو سڑک کے کنارے پڑا کوئی پتھر ہو۔ وہ نہ صرف بھگوان سے کھیلتی ہے ، مذاق کرتی ہے بلکہ کبھی کبھارتوہین آمیز رویہ اختیار کرتی ہے۔ مندر میں آنے والے بھی مندر کی اس بلی کی حرکتوں کا برا نہیں مناتے بلکہ اس کو بھگوان کا انش سمجھتے ہیں۔ اس لئے بلی کی بے حرمتی پاپ سمجھتے اور اس کی خاطر مدارت عبادت سمجھ لی جاتی ہے۔

 بلی کی بے تکلفی سے لگتا ہے کہ بھگوان نے بلی کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ مندر میں من مانی کرسکتی ہے۔ بلی مندر کی بھیدی اور راز دار ہوتی ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ بھگوان ایک مورتی کا نام ہے جو ہل جل نہیں سکتی اور نہ ہی کچھ بول سکتی ہے۔ مورتی نے خود کو نہیں بلکہ پجاری نے بھگوان بنایا ہے۔ ورنہ یہ مجسمہ کسی آدمی نے تراشا ہے اوریہاں گاڑ دیا ہے۔ جو دودھ وہ پی رہی ہے بھگوان کے نام پر رکھا گیا ہے جس کی بھگوان کو ضرورت نہیں۔ اس دودھ کو ختم کرنے کے لئے بھی \"cat2\"بلی ضروری ہے۔ بھگوان کے نام پر رکھا پرسادھ دراصل لوگوں کے لیے ہے اور بھگوان اس کا بھی محتاج نہیں۔ مندر میں دی جانے والی نذر نیاز کی بھگوان کو نہیں لوگوں کو ضرورت ہے۔

بلی شاید یہ بھی جانتی ہےکہ پجاری نے بھگوان کے نام پر لوگوں کو آسرا دے کر یا ڈرا کر رکھا ہوا ہے۔ دراصل بھگوان کی یہ مورتی محض ایک پتھر کا مجسمہ ہے جو نہ کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ ہی چھین سکتا ہے۔

مندر میں بلی کا ایک ہی رقیب ہوتا ہے اور وہ ہےمندر کا پجاری۔ بلی پجاری سے ڈرتی ہے۔ وہ جانتی ہے اس کے سامنے کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ وہ جانتی ہے کہ پجاری ہی مندر کا اصل مالک ہے۔ اس لیے بلی کسی اور بلی کو مندر میں گھسنے نہیں دیتی۔ وہ جانتی ہے کہ پجاری تقدس کا بٹوارہ پسند نہیں کرے گا۔ اگر بلیوں کی تعداد زیادہ ہوں تو پجاری انہیں مار بھگا سکتا ہے۔ مند ر سے باہر پھینکوا دینا تو اس کےبائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مندر میں بھگوان، بلی اور پجاری ایک خاندان کے افراد ہیں۔ بلی مندرکو چوہوں اور دوسری بلیوں سے پچاتی ہے، اگر ایک ہو تو پجاری بلی کی حفاظت کرتا ہے اور بھگوان۔۔۔ دونوں کی روزی کا وسیلہ۔

ہمارےہاں بھی بہت سی مندر کی بلٌیاں موجود ہیں جو اس ملک کو مندر اور اس کے کرتے دھرتوں کو پجاری سمجھ کر وہی کرتے ہیں جو مندر کی بلی کرتی ہے۔ یہ ہر \"cat3\"ادارے اور ہر محکمے میں موجود ہوتی ہیں جو مندر میں رکھے بھگوان کے دودھ کی طرح زکواۃ وخیرات سے لیکر سرکاری واجبات اور مال تک کھا کر شرمندہ ہونا تو دور کی بات ڈکار لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتیں۔ عوامی اور سرکاری پیسہ تو کبھی بھی حرام تصور نہیں ہوتا۔

حج سکنڈل سے لے کر ملک کی ایک بڑی مسجد میں سونے کی جگہ تانبے کے استعمال تک ہر جگہ دودھ اور پرساد کی چوری میں پجاری یا بلی یا پھر یا دونوں ملوث ہیں۔

پچھلے دنوں ایک بڑے پجاری کو ملک کے انتظام وانصرام کے لیے عوام سے مال اکھٹا کرنے والے ادارے کی بلیوں کے پندو نصاح کے کیے بلایا گیا۔ چونکہ ان حضرت کی تقریر بڑی پر اثر سمجھی جاتی ہے اس لیے ٹیلویژن کے ذریعے ہر خاص و عام کو سنائی گئی۔ ملک کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں کے گوش گذار کی جانے والی یہ تقریر واقع پراثر تھی۔ اس تقریر میں چوری کا مال کھانے والوں کو مقرر کردہ عذاب اور نہ کھانے والوں کے لیے باغ عدن میں منتظر حور و غلمان رنگین تذکروں نے تو جیسے سماں ہی باندھ دیا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کچھ نہ لوٹیے، آگے لوٹنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

تقریر میں تاریخ کے وہ حوالے تھے جب اہل ایمان امین اور دیانتدار ہوا کرتے تھے تو دنیا کے فاتح ہوتے تھے اور کہا گیا کہ آج ہماری زبوں حالی کی وجہ ہماری اپنے اجداد کے سنہری اصولوں سے روگردانی ہے۔ اس تقریر کا اثر تو ہوا ہی ہوگا کیونکہ اس مجلس میں بیٹھے کچھ لوگ آشکبار بھی نظر آے۔ لوٹ کھسوٹ کو قیامت تک \"cat1\"موخر کرنا کس قدر کار آمد ہوتا ہے؟ یہ سب اللہ ہی جانتا ہے۔

اب ایک اور بلی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے مندر کی سب سے بڑ ی اور لاڈلی بلی ہونے کا اظہار  کچھ یوں کیا کہ اپنے کاروبار میں وسعت لانے کے لئے پجاریوں کے حصے کو بطور رشوت دینا اپنے پیشے کا حصہ قرار دے کر الکاسب حبیب اللہ قرار پائے۔ اس میں راز کی بات صرف اتنی ہے کہ پجاری کی مرضی کے بغیر مندر میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس کی چشم کرشمہ ساز رشوت کو نیاز بھی قرار دے سکتی ہے۔

ان صاحب نے برملا کہا کہ اس ملک میں تجارت کرنے والا ہر آدمی رشوت کے دروازے سے لازمی گزرتا ہے اور اس گناہ کے کفارے کے طور پر اُسے پجاریوں کی سیوا کرنا پڑتی ہے۔ تا حال کسی پجاری نے ان صاحب کی دلیل کو رد نہیں کیا کیونکہ یہ دلیل ہی پجاری اور بلی مابین پرامن بقاے باہمی کا معاہدہ ہے۔ اسی معاہدے کی شہ پر مندر کی بلی بھگوان سے نہیں ڈرتی۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments