“ری سیٹ” کی کہانی اور نئے پاکستان کی مشکلات



جب صدر باراک اوبامہ کے دور میں ہیلیری کلنٹن امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیر برائے امور خارجہ ) تھیں، ان دنوں اوبامہ جب بھی روس کی بات کرتے تو روس کے ساتھ تعلقات میں “ری سیٹ بٹن” کو دبانے کی بات کیا کرتے تھے۔

مارچ 2009 کے پہلے ہفتے میں ہیلیری کلنٹن اور روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کے درمیان جینیوا میں ایک “ورکنگ ڈنر ” پر مل بیٹھنا طے ہوا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ تناول کا آغاز کرتے تاکہ خوشگوار ماحول میں باہمی قومی امور بارے گفتگو کر سکیں تو پریس والوں کے سامنے پر مسرت مسکراتی ہوئی ہیلیری کلنٹن نے انہیں ایک چھوٹا سا سبز ڈبہ دیا جس پر ربن بندھا ہوا تھا۔

لاوروو نے اسے کھولا تو سبز پلاسٹک کی ڈبیا نکلی جس پر ایک سرخ بٹن نصب تھا۔ ڈبیا پر روسی لفظ ” پری گروزکا ” یعنی ری سیٹ چھپا ہوا تھا۔ ” میں آپ کو ایک چھوٹا سا تحفہ دینا چاہتی ہوں جو اس موقف کو ظاہر کرتا ہے جو صدر اوبامہ، نائب صدر بائیڈن اور میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ہم آپسی تعلقات کو ری سیٹ ( پھر سے استوار ) کرنا چاہتے ہیں چنانچہ یہ ہم مل کر کریں گے” ہیلری نے پیکٹ لاوروو کو تھماتے ہوئے کہا۔
پھر کہا تھا،” ہمیں مناسب روسی لفظ تلاشنے کی خاطر خاصی سرکھپائی کرنی پڑی تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ لفظ مناسب ہے؟”

” آپ نے غلط لفظ ڈھونڈا ” لاوروو نے کہا اور دونوں سفارت کار قہقہہ لگا کر ہنس دیے تھے۔

لاوروو بولے،” ری سیٹ کے لیے درست روسی لفظ ” پیری زا گروزکا ” ہے۔ آپ نے لکھ دیا ” پری گروزکا” جس کا انگریزی میں متبادل “اوور چارجڈ” ہے اور یقین کیجیے ہم آپ کو اپنے ساتھ ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں اور ہم اس بات پر نگاہ رکھیں گے”۔

تعلقات پھر سے استوار ہوئے، اونچ نیچ ہوتی رہی مگر روس نے جو کہا تھا وہ کیا خود کو اوورچارج ہونے سے بچایا ۔ پہلے یوکرین میں مغربی سرگرمیوں کا جواب یوکرین کے جنوب مشرقی حصے میں موجود روسیوں کی مدد کرکے دیا اور جب امریکہ کرنٹ بڑھانے لگا تو روس نے بڑھ کر کریمیا کو خود سے ملحق کر لیا۔

ری سیٹ کیا گیا سب کچھ بھک سے اڑ گیا۔ امریکہ نے روس پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں، یورپ کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ پھر جب امریکہ نے ملک شام میں روس کے مفادات پر وار کرنے کی کوشش کی تو روس شام کے صدر بشارالاسد کی درخواست پر اپنی فوج لے، شام جا پہنچا۔ آج بھی عدلب پر حملہ کرنے میں شامی فوج کی معاونت کر رہا ہے۔

امریکہ نے بھی روس کا کچومر نکالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پہلے سعودی عرب سے تیل کی قیمت مسلسل کم کروائی اور روس کی معیشت پر کاری وار کیا۔ روس میں ڈالر روبل کی شرح دوگنی سے زیادہ ہو گئی اور آج یہ حال ہے کہ ایسے لطیفے بن رہے ہیں جو ذیل میں درج ہے۔ یاد رہے لطیفے یا تو جبر کی فضا میں بنتے ہیں یا مجبوری کے عالم میں تبھی تو ایسے ادوار میں لکھنے والے بھی طنز نگاری یا علامتی طور پر لکھنے لگتے ہیں :
پہلی جماعت کے بچوں کو استانی کہتی ہے کہ کئی سال سے ہمارا ملک اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اس سے آپ کی زندگیوں پر کیا اثر ہوا۔

پہلی بچی: ہم نے گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے۔

استانی: بہت اچھا کیا۔

دوسری بچی: ہم نے گوشت کے ساتھ ساتھ پنیر کھانا بھی ترک کر دیا ہے۔

استانی: یہ بھی ٹھیک ہے۔

تیسرا بچہ : ہم نے ماما کو گھر سے نکال باہر کیا ہے۔

استانی: ہائیں، وہ کیوں؟

بچہ: دیکھیں ماں کی چھاتی کا دودھ مجھے عرصے سے درکار نہیں ۔ پاپا بیچارے عرصے سے ایستادگی سے عاری ہیں چنانچہ ہمسایوں کی خاطر ماما کو کھلانا پلانا؟ معاف کیجیے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

یہ سب آپ کو اس لیے بتایا گیا کہ 5 ستمبر 2018 کو امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے پاکستان کے انتہائی مختصر دورے سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ بگڑے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں ایک بار پھر “ری سیٹ” کی بات کی گئی ہے۔

یاد رہے شاہ محمود قریشی سرگئی لاوروو ایسے زیرک اور پیشہ ور سفارتکار نہیں ہیں اور نہ ہی جیسا کہ صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے صحافی حامد میر کی جانب سے اقوام متحدہ میں جانے بارے مشورے کے جواب میں کہا تھا کہ بھکاریوں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے، کسی میں ایسی ہمت تھی کہ پومپیو کو کھری کھری سنا دیتا۔

قریشی صاحب اپنی زباندانی، بس ہمیں دکھا سکتے ہیں یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ پومپیو یعنی امریکی حکومت اس بات پر ڈٹی ہوئی ہے کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی بصورت دیگر امریکہ جو چاہے گا ( پاکستان کی سرزمین پر) وہ کرے گا۔

کیا کوئی کبھی یہ سمجھا سکتا ہے کہ ہندوستان کو خوش کرنے کی خاطر امریکہ نے یہ کہہ دیا وہ کہہ دیا کا کیا مطلب ہے؟ امریکہ نہ اپنے ملک میں اور نہ ہی اپنے ملک سے باہر برادری بندی کی سیاست نہیں کرتا۔ امریکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے اور طاقتور کھل کے بولتا ہے، اسے کونسا کسی کا ڈر ہے۔
چھوٹا سا مسئلہ ہے، جو چند ایک ” افغان مجاہد ” موجود ہیں، ان کو یا افغانستان دھکیلیں یا ان کے خلاف آخری کارروائی کریں بصورت دیگر نہ ہمارے پاس روس جتنا تیل ہے اور نہ ہماری روسیوں جیسی قوم ہے، جو اور جیسی قوم ہے وہ دو روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھنے پر واویلا کرنے لگ جاتی ہے اور دو روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت گھٹائے جانے پر خوش نہیں ہوتی۔ امریکہ اپنی آئی پر آ گیا تو رہی سہی معیشت بھی زمیں بوس کر دے گا۔
ایسا کہنے پر کوئی چاہے تو مجھے امریکی ایجنٹ، غدار وغیرہ جو چاہے کہے مگر حقائق سے نظریں شتر مرغ چراتے ہیں حساس اور باشعور لوگ نہیں۔ وہ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مناسب راہ عمل سجھاتے ہیں۔ پاکستان نیا پاکستان بنتے بنتے بہت مشکل ادوار میں داخل ہونے کو ہے، یقین کیجیے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).