نیا بلوچستان


رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں گڈ گورننس، حکومتی و دیگر امور میں میرٹ اور شفافیت کا فقدان، مخدوش امن و امان کی صورت حال اور ترقیاتی عمل کا عدم تسلسل ایسے چیلنجز رہے ہیں جو 70 کی دہائی کے بعد بننے والی تمام حکومتوں کو کسی نہ کسی صورت درپیش رہے۔ دیکھا یہ گیا کہ دائمی امراض میں مبتلا یہ صوبہ نہ مرکزکے حقوق پیکیچ کی چورن سے روبصحت نہ ہوا، نہ ناراض رہنماؤں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششں بار آور ثابت ہوئیں اور نہ ہی قوم پرستوں کے تبدیلی کے دعوے حقیقت میں بدل سکے۔

دور جدید کی سہولیات سے محروم بلوچستان کے طول و عرض میں رہنے والے لوگ 21 ویں صدی میں بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالت یہ کہ اس جدید دور میں بھی طب کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں خواتین اور بچوں کی اموات کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ 21لاکھ بچے کبھی اسکول گئے ہی نہیں، بلوچستان کے باسیوں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ذراعت اور گلہ بانی حکومتی عدم توجہی سے تباہی کے دہانے پر ہے، پی ایس ڈی پی کی دکان میں ہر سال اربوں روپے کی نئی اسکیمات کے نام پر یہاں کے لوگوں کے آئینی حقوق سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے مسائل کے سمندر کو اگر کوزے میں بند کیا جائے تو یہ کہنا بجا ہو گا کہ بلوچستان گڈ گورننس کے خوبصورت طرز حکومت، ترقی کے ثمرات سے عام آدمی کی محرومی، میرٹ اور شفافیت کے فقدان اور بد ترین کرپشن کا دیمک زدہ ہے جوصوبہ بلوچستان کو مل کر مسائل کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں۔ تمام برائیوں اور مسائل کی جڑ کرپشن کے سد ِ باب سے پہلو تہی اور سیاسی رہنماؤں کی ترجیحات میں اس کے حل کرنے کاجذبہ اور مضبوط عزم نہ ہو نے کی وجہ سے بلوچستان آج تمام صوبوں سے پیچھے ہے۔

بلوچستان کے باسیوں کو اُنکے حقوق دلانے اور بلوچستان کے مسائل بلوچستان میں حل کرنے کا نعرہ لے کر بلوچستان عوامی پارٹی کا ظہور ہوا، بلوچستان عوامی پارٹی کے ظہور میں کار فرما محرکات سے قطعہ نظر پارٹی میں شامل افراد کے ظاہرِ عزم سے انکار اس لئے ممکن نہیں کہ الیکشن 2018 میں اُنکی کامیابی اس بات کا مظہر ہے کہ لوگوں نے اُن کے دعووں اور نیت کی بنیاد پر انہیں منتخب کیا ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ اپنے دعووں میں کس قدر سچے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصا ف میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں تبدیلی کے نعرے سے مسند اقتدار تک پہنچی ہیں جہاں مرکز میں تحریک انصاف کو اپنے منشور اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کے لئے کوہ ہمالیہ سر کرنا ہے وہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے سامنے بھی گورننس، کرپشن سمیت بڑے بڑے مسائل اپنا منہ کھولے موجود ہیں۔

دھیمے لہجے میں بلوچستان کی محرومیوں کا احساس لئے محروم صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لئے پر عزم، جام کمال صوبہ بلوچستان کا ایک خوبصورت تعارف ہیں۔ وزیرا اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے نیب زدہ افسران کو کلیدی عہدے نہ دینا سال 2018۔ 19 کی پی ایس ڈی پی کی 1600 اسکیمات کی تحقیقات اور ملوث بیورو کریٹس کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا عزم، جعلی دوائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، محکمہ صحت میں اصلاحات اچھی شروعات ہیں تا ہم انہیں اپنے منصب سے انصاف کرنے اور بلوچستان کو پر امن کرپشن سے پاک صوبہ بنانے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔

یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ جام کمال ا س حقیقت سے واقف ہیں کہ بلوچستان میں امن و امان کا اور ترقیاتی عمل کے تسلسل کا نہ ہونا کن بنیادی مسائل کا پیدا کر دہ ہے۔ بلوچستان کو مسائل کے گرد اب سے نکالنے کے لئے کسی بھی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں اس کے لئے انہتائی بنیادی چیزوں کو ٹھیک کر کے معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔ سرکاری و سائل کی لوٹ مار، سزا و جزا کے عمل سے بے خوفی، بے لگام کرپشن اور گڈ گورننس اور میرٹ کی پامالی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کے بطن سے امن و امان و دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہو، ہسپتالوں میں سرنج تک دستیاب نہ ہو، سکول ہو تو ٹیچر نہ ہوں، ٹیچر ہوں تو سکول کی عمارت دستیاب نہ ہو بغیر سفارش اور رشوت کے نوکری نہ ملتی ہو، سرکاری دفاتر میں جائز کا م کے لئے عام آدمی کی کوئی شنوائی نہ ہو، اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے جیبوں کی نذر اور کام فائلوں کی نذر ہو تو پھر بلوچستان کا نوجوان کبھی اپنوں توکبھی پرائیوں کے ایجنڈے میں استعمال تو ضرور ہو گا۔ فورسز کو جدیدخطوط پر تربیت ضرور دی جائے لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ صوبے سے اگر بد امنی ختم کرنی ہے ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانا ہے تو اپنے گھر کو ٹھیک کیا جائے، میرٹ اور شفافیت پر کوئی سمجھوتا نہ ہو، اہل افسران کو کلیدی اور مفاد پرستوں کو باہر کا راستہ دکھایا جائے، آئین میں موجود عوام کے بنیادی حقوق یقینی بنائے جائے، تعلیم صحت سمیت بنیادی سہولیات گھر کی دہلیز پر پہنچانے کی سنجیدہ کوششیں کی جائے تو کوئی بعید نہیں کہ بلوچستان دوسروں صوبوں کے برابر نہ آئے۔ گو یہ ایک مشکل امر ہے لیکن مضبوط عزم کے سامنے اس کیکوئی حیثیت نہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کے لئے یہ بہت بڑا امتحان ہے اگر وہ کرپشن کے تدارک اور ترقیاتی منصوبوں کے صحیح مصرف کو یقینی بنا دیتے ہیں تو امن و امان سمیت تمام مسائل قصہ دارینہ بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے تبدیلی کی ابتداء کرنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال گڈ گورننس، کرپشن کے خاتمے اور بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے میں کس حد تک کا میاب ہو نگے، اُنکے رفقاء اُنکی نئے بلوچستان کے لئے کس حد تک معاونت کرتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).