سرمہ ہے ميری آنکھ کا خاک مدينہ و نجف


روضہ رسول سے اٹھ کر واپس ہوٹل کی طرف لوٹنا اک کڑا مرحلہ تھا مگر ستم یہ تھا کہ دن بھر کے سفر کی تھکاوٹ تھی ، تہجد کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کی شدید چاہت تھی تو اسی دوپہر عمرے کی روانگی بھی تھی ۔گھڑی دو گھڑی کا آرام نہ کرتے تو عمرہ کی افادیت تھکاوٹ کی نذر ہو جاتی۔ نبی کے در پر حاضری کے بعد رب کعبہ کے در پر حضوری میں بھی اتنی ہی چابک دستی اور مستعدی درکار تھی ورنہ کیا منہ لے کر اس کے در پر جاتے۔

رات بارہ بجے کے قریب مسجد سے واپسی ہوئی تو ذہن میں اک خیال اترتا رہا۔سوچا کہ شاید اسی سرزمین میں، یہیں کے لوگوں میں اتنی طاقت تھی کہ ایسی عظیم ترین ہستیوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتیں اور انکے تقدس اور احترام کا بوجھ اٹھا سکتے۔احساس ہوا کہ ہمارے اسلام کے نام پر بننے والی تاریخ کی دوسری ریاست میں جہاں محض چند اولیاء کرام کے مزارات ہیں اور ہم نے ان کو ملنگوں،دھمالوں،تعویذ گنڈوں،فقیروں اور منشیات فروشوں کے حوالے کر دیا۔تو یقینا یہ مدینہ کی زمین کی طاقت اور اسکے لوگوں کی ہمت تھی جو اتنی عقیدت بھری جگہوں اور انکی سچائیوں کو صدیوں سے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ جو ہوتے یہ مقام گر پاکستان میں تو سوچئے ہم نعوذ باللہ ان کا کیا حال کر دیتے۔۔۔


رات کے آخری پہر تین بجے جب میں مسجد نبوی کے لئے تنہا نکلی تو گرچہ ریسیپشن سے لیکر مسجد تک ہر شے،ہر دکان اور ہر روشنی جاگتی تھی ،سناٹا گر نہ تھا تو خموشی ضرور تھی۔ کچھ فاصلے کے ہوٹلز میں قیام رکھنے والے زائرین راتیں مسجد ہی کی صفوں پر سوتے جاگتے گزار دیتے ہیں۔ قریب کے ہوٹلز والے کہیں کہیں کوئی اکا دکا لوگ نکلتے دکھائی دییے۔رات کے تین بجے ،ایک غیر ملک کی سڑک پر،چند قدم کا فاصلہ تنہا پار کیا تھا تو ایسا کرنے والی یہ زندگی کی پہلی رات تھی۔سالہا سال ابوظہبی کی محفوظ گلیوں میں بھی کبھی یہ ہمت اور وقت زندگی نے نہ دیکھا تھا کہ اندھیری رات میں پھیل جانے والی تاریکی کی قوتوں، وسوسوں،شیطانی ارواح سے ڈر طبیعت کا اک خاص خاصا ہے۔مگر آدھی رات کو پاکستان کے اک روایت پسند گھرانے کی تنہا عورت کا اک انجان دیس کی گلی میں نکلتے خوفزدہ نہ ہونا بھی ان مبارک مقامات کی نورانی تاثیر کا اک معجزہ تھا۔دماغ کو جکڑا ہر وسوسہ اور دل کو جکڑا ہر خوف انسان کو رہائ دے دیتا ہے۔ دنیا بھر کی عموماً اور جنوبی ایشیاء کی خصوصاً پسی ہوی، دبائی ہوئی، چھپائی گئی عورت اس گھر کے قریب پہنچ کر دلیر ہو جاتی ہے۔

آدھی رات کو سویا خاندان چھوڑ کر ہوٹل سے نکل آتی ہے، مسجد کی سمت چل دیتی ہے، نبی پاک کے حجرے نے اس کی گردن اور کندھوں پر رکھے بھاری وزن اٹھا دئیے ہیں اور اسکے آس پاس کھڑی پابندی اور زمہ داریوں کی دیواروں سے اسے آزاد کر دیا ہے،آج اسکی رہبر،اور وکیل پیارے نبی پاک کی ذات ہو جاتی ہے۔گھر کے سات پردوں میں،آخری کونے میں چھپا کر رکھی گئی ،عورت کا جھکا سر اٹھ جاتا ہے اور وہ اپنی تمامتر زندگی سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔آج اس مسجد پر،روضہ رسول پر،ریاض الجنہ پر،باجمعاعت نمازوں پر، مصلوں پر ،تہجد اور راتوں کی عبادت پر اسکا برابر کا حق ہے وہ حق جو اپنے شہر کی گلیوں میں کسی نہ کسی بہانے اس سے چھین لیا جاتا ہے۔آج کوی خوف،کوی رعب،کوئ حکم،کوی زمہ داری اسے اس روضے کی جالی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔ آج وہ حفاظت،عزت اور تقدس کے نام پر چار دیواری میں قید نہیں کی جا سکتی کہ آج رحمت لقب پانے والے کی رحمت کا سہارا اسکے ہاتھ ہے۔اسی لئے جنوبی ایشیا کی عموماً اور پاکستان کی خصوصا تھکی ہوئی،پسی ہوئ عورت سر اٹھائے بے نیازی سے مسجد نبوی کے صحنوں میں آدھی رات کو تنہا بیٹھی ہے،بھائیوں بیٹوں، باپوں اور شوہروں سے لاپرواہ،غیر مردوں کی موجودگی سے بے نیاز،پردیس کی ہواؤں سے لاتعلق،اک پیارے نبی کے آستانے کا سایہ ہی بہت ہے ہر اندیشے،ہر خوف،اور ہر وہم پر چھا جانے کے لئے۔ کچھ دنوں کے لئے یہ خودمختار طاقتور عورت جی بھر کر نماز اور تلاوت کرتی ہے،سبز جالی پکڑ کر روتی ہے اور ہرا گنبد دیکھ کر دہائیاں دیتی ہے اور جی بھر کر یہ فرصتیں ،فراغتیں،عبادتیں اور سعادتیں اپنی جھولی میں سمیٹتی ہے کہ آج اس کا حصہ آدھا کرنے کا اختیار اس دنیا کی کسی طاقت کے پاس نہیں۔

انہیں آزاد، مضبوط اور خود مختار عورتوں کے بیچ مسجد نبوی کے صحن میں تہجد اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد سب سے پہلی طلب مسجد کے گنبدوں پر پو پھوٹنے کے مناظر اپنے کیمرے میں قید کرنے کی تھی چونکہ روضہ رسول میں داخلے کے اوقات سات بجے کے بعد تھے اور اس سے پہلے مسجد دیکھنے اور تصاویر بنانے کے لئے مناسب فراغت تھی۔ سورج کی یہ پہلی کرنیں مجھے مل نہ سکیں کہ مسجد کے کناروں پر بلند بالا ہوٹلز کی عمارتوں نے سورج کو کہیں پیچھے چھپا رکھا تھا۔بیگ میں کیمرہ لئے دو بار مسجد کا اندرونی دروازہ پار کرنے کی کوشش کی مگر کمر سے کمر جوڑے کھڑی سیکورٹی کی عرب خواتین نے دروازے سے ہی” امانتہ” کا رستہ دکھا دیا۔کہ پروفیشنل کیمرے کے ساتھ اندر جانے کی قطعی اجازت نہ تھی۔ سو صبح سویرے کے کچھ لمحات مسجد نبوی کی زیارت کرتے ،اسکے دائیں بائیں گھومتے کچھ مناظر قید کرتے فرصت سے گزارے اور پھر گیٹ کے پاس بنے بند لاکر سسٹم کے تحت بنے” امانتہ” میں دو ریال فی گھنٹہ کی قیمت سے اسے جمع کروا دیا جسکے وجود نے میرے قدموں کو حاضری سے روک رکھا تھا۔ پیچھے لٹکائے بیگ میں جوتے گھساے کہ جوتے غائب ہو جانے کا مرض یہاں پر بھی خوب پھیلا ہے اور اب کی بار آرام سے دروازہ پار کیا۔اندر سے آب زم زم کے کولرز سے پانی کی بوتل بھر کر بیگ میں ٹھونسی اور ایک بار پھر کئی راہداریوں سے گزرتے کئی رکاوٹوں کو پار کرتے روضہ رسول پہ پہنچی۔اس بار یہ زیارت کچھ مزید فاصلے سے میسر آئی چونکہ ابھی رکاوٹیں اٹھانے کا آغاز تھا اور شاید میری اس بار کی آخری اور مختصرحاضری بھی کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں عمرہ کی روانگی سے پہلے مسجد قبا،جنت البقیع،اور کوہ احدکی زیارت کرنے کی بھی آرزو تھی۔ نجانے پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار کھلنے والا یہ در پھر کب نصیب ہو،نجانے پھر کب ہماری درخواستیں قبول ہوں،۔۔۔۔۔نصیب میں حاضری نہ ہو تو دور رہنے کے ہزار بہانے بن جاتے ہیں۔ہم بھی مقدر کے ان بہانوں سے ڈرتے ہر اہم زیارت پر کم سے کم اک نظر ڈالنے کے متقاضی تھے۔ کچھ گھڑیاں پھر سے سبز جالی کے سامنے مینار سے ٹیک لگائے اپنے شکوے شکایتوں،مرادوں اور شکرانے کا دفتر سجاے، اپنی ہر طلب،حسرت اور خواب اٹھا اٹھا کر پیارے نبی کے حوالے سے اسکے محبوب کے سامنے رکھتی رہی ساتھ ہی ساتھ ان سارے احباب کے محبت نامے،سندیسے اور سلام بھی جنہوں نے نکلتے سمے یا بیچ راہ یا پہنچتے ہی مجھے روک کر تھماے تھے اس کی چوکھٹ پر چھوڑے جس کے نام کے تھے۔

بہت بار قریب تر عزیزوں کے قبروں پر فاتحہ کے لئے جانا ہوا تو ہمیشہ ایک بات محسوس کی۔قبر کے کنارے بیٹھے آپ کبھی اس ہستی کی تاثیر محسوس نہیں کر پاتے جسکی لہد اس قبر میں لیٹی ہوتی ہے۔عجب سا خالی پن محسوس ہوتا ہے۔ واحد روضہ رسول پر یہ احساس دیکھا کہ آپکی مبارک ہستی کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔دکھای نہ دینے والی آپکی موجودگی دھڑکنوں میں سنای دیتی تھی اور انسان نہ دیکھتے ہوے بھی آپکی ہستی کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے۔کیا آپ نے بھی کبھی یہ محسوس کیا۔؟.روضہ رسول پر جائیں تو یہ فرق ضرور محسوس کریں ۔روضہ رسول میں پیاری نبی کی تاثیر اور خوشبو صدیوں بعد بھی آج بھی حیات ہے۔زندگی کی ان کچھ قیمتی ترین الوداعی گھڑیوں کے بعد مڑ مڑ کر دیکھنے کا عمل تھا،بھاری دل تھا اور پلٹتے ہوے قدم تھے۔دل چاہتا تھا کہ یہیں کہیں قریب کا ہی ٹھکانہ ہو کہ کبھی اس گنبد کو اور اس گنبد کے والی کو یوں چھوڑ کر لوٹنا نہ پڑے۔ ریاض الجنہ میں یونہی چند گھڑیوں کی حاضری لمحوں میں گزر گئی تھی۔نکلنا بھی ضروری تھا چونکہ پیچھے بچے جاگ چکے تھے ناشتہ پر میری موجودگی کے لیے گھڑی گھڑی فون کھڑکاتے تھے۔سو اپنی طرف سے الوداعی بوسے دیتی،واپسی کی گستاخی کی معذرتیں کرتی میں واپس ہوٹل کی طرف لوٹ رہی تھی۔ ہم حقیر اور بیکار لوگ ایک ہی گھنٹے کی دعا سے بھر جاتے ہیں۔ساری عمر آہیں بھرنے والی دعائیں چند لمحوں میں ختم ہو جاتی ہیں کچھ مانگی جاتی ہیں کچھ یاداشت سے ہی اوجھل ہو جاتی ہی ۔وہ مسائل وہ شکوے وہ حسرتیں جن پر ہم اٹھتے بیٹھتے ہاے ہاے کرتے ہیں نظروں میں ایسی حقیر ہو جاتی ہیں جیسے جہاز کے بلندی پر جا کر نیچے کے بلند و بالا پہاڑ بھی کم قیمت اور حقیر لگنے لگتے ہیں۔تو مکہ اور مدینہ دنیا کے بلند ترین مقامات ہیں جغرافیائی حساب سے نہیں،تاثیر کے حوالے سے،کہ یہاں پہنچ کر زندگی کی ہر حاجت،ہر طلب ہیچ ہو جاتی ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3