تعصب ایک زہر قاتل


کسی بھی فرد کو ریاست اس کی تعلیمی قابلیت اہلیت اور ذہانت کو جانچتے ہوئے، اس کو کسی اعلی و ادنیٰ عہدے پر فائز کرتی ہے۔ اس کی زندہ مثال مراکشی نژاد مسلمان نجاد ولود بلکا جیم جو اب فرانس کی وزیر تعلیم ہیں، جو ایک چرواہے کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن میں خود بھی بھیڑ بکریاں چرایا کرتی تھیں، اس کو شعبہ تعلیم جیسے اہم عہدے پر فائز کرنا ہے، جہاں %88 رومن کیتھولک عیسائی آباد ہیں اور مسلمان صرف آٹھ فی صد ہیں۔

اس بات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ ترقی صرف کشادہ سڑکوں بڑی عمارتوں اچھے اسپتالوں اور بڑے تعلیمی اداروں کی موجودگی کا نام نہیں، بلکہ اجتماعی معاشرتی مثبت رویے، رواداری، مساوات اور برداشت کے کلچر کے فروغ ہی سے صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ تعصب اور تنگ نظری کے زیر اثر رویے قوم یا کسی معاشرے کے کے اخلاقی اقدار کو بنیادوں سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں عیسائی مذہب کے ماننے والے اکثریت میں ہوں، وہاں کسی پادری کسی مذہبی راہب نے یہ آواز بغاوت بلند نہیں کی، کہ کسی مسلمان عورت کو شعبہ تعیم کا قلم دان دینے سے ان ملک کے تعلیمی نصاب پر اس کا منفی اثر نہ پڑے، کہیں وہ تعلیمی نصاب میں رد و بدل کر کے ہمارے مذہبی عقائد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔

رہی بات ہماری بحثیت قوم فکری طور پر ہماری اجتماعی سوچ تنگ نظری اور تعصب کی عکاس ہے اور اس حد تک ہماری سوچ سطحی اور منفی ہو چکی ہے، کہ کسی حکومتی یا اعلی عہدے کے لیے کسی فرد کی ایمان داری دیانت داری۔ قابلیت، ذہانت، تعلیمی قابلیت اور محنتی ہونا یہ سب ثانوی خصوصیات ہیں۔ ہمارے لیے تو قابل غور امر، اس شخص کا مذہب، مسلک، فرقہ، دینی عقائد ہیں۔

وہ شخص نماز کس طرح پڑھتا ہے، مزاروں پر سجدہ تعظیمی کرتا ہے یا قبروں کو بوسہ دیتا ہے؟ دوران نماز ہاتھ ناف کے اوپر باندھتا ہے یا ناف سے نیچے؛ اس کے رکوع و سجود کیسے ہیں۔ اسی بحث مباحثہ کا عملی نمونہ کچھ دن پہلے دیکھنے کو ملا، جب سوشل میڈیا پر عمران خان کے ناقدین جن میں بڑی قد آور سیاسی مخالفین بھی شامل ہیں، وہ پی ٹی آئی کی قیادت سے ایک بھونڈا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آئے کہ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کی وہ فوٹو اپلوڈ کی جائے، جس میں وہ نماز عیدین ادا کرتے ہوئے نظر آئیں، تا کہ ان کو یقین ہو ان کو دلی سکون میسر آئے، کہ واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم اپنے انفرادی دینی معاملات بخوبی سر انجام دے رہے ہیں؛ حالاں کہ اسلام کی بنیادی تعلیم یہی ہے، کہ عبادات انسان اور اللہ کے درمیان کا وہ معاملہ ہے جس میں کسی تیسرے کا دخل نہیں اور جو عبادات دکھاوے کے طور پر کی جائے وہ ریاکاری کے زمرے میں آتی ہیں جن کا اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔

اس تنگ نظری، تعصب نے بین الاقوامی سطح پر ہمارے تشخص کو جو نقصان پہنچایا، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشی و اقتصادی طور پر ملکی سطح پر بھی بے حد مشکلات سے دو چار کیا ہے؛ جو دن بدن بجائے کم ہونے کے مزید بڑھتی جا رہیں ہیں۔ ہان مگر اس سے ایک مخصوص قسم کے طبقاتی تفریق کرنے والے عناصر کو ضرور فائدہ ہوتا ہے اور انھی فرسودہ جذبوں کو تقویت دے کر اس کو یہ شر پسند عناصر بطور ہتھیار استمعال کر تے ہوئے، کبھی کسی پر یہودی ایجینٹ؛ کبھی کافر، کبھی غیر ملکی جاسوس کے لیبل لگا کر کسی شخص یا کسی مخصوص عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جذبہ حب الوطنی کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشیش کرتے ہیں۔

یہ عدم برداشت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا گلوبل ولیج کی صورت میں سائنسی علمی اعتبار سے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہم سب سے الٹ چلتے ہوئے تخلیق، شعور، دلیل سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے حقیقی ہیروز اور محسنوں جن میں قابل ذکر نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام، ملالہ یوسف زئی، عبدالستار ایدھی صاحب اور بھی بہت سی شخصیات شامل ہیں جن کی خدمات کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے اور جن کی وجہ سے پاکستان کا سافٹ امیج ساری دنیا کے سامنے ابھر کر آتا ہے، ان شخصیات کو ہم نے بجائے خراج تحسین پیش کرنے کے ان کی خدمات کی قدر کرنے کی بجائے ان کو بری طرح فراموش کر دیا؛ بلکہ ان شخصیات کو مذہب عقیدے کے خود ساختہ ترازو میں تولتے ہوئے ان شخصیات کو متنازع بنا دیا ہے۔ اگر ہمارا یہی وتیرہ رہا اور تاریخ کو مسخ کرتے رہے، تو ہماری آنے والی نسلیں شاید ملا عمر، اسامہ بن لادن اور ملا فضل اللہ کو اپنا حقیقی ہیرو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

انس احمد بزدار
Latest posts by انس احمد بزدار (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).