مغلیہ حکومت کی بے مثال ملکہ نور جہاں


1973میں میری عمر سات سال کی تھی۔ ان دنوں فلمیں دیکھنا کافی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ایک فلم ایسی دِکھائی جارہی تھی جس کو ہر عام و خاص دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ اس فلم کا نام ’مغلِ اعظم‘ تھا۔ گھر کے تمام مرد افراد کئی مہینے سے اس فلم کو دیکھنے کے لئے بے چین تھے اور مجھے بھی اس فلم کو دیکھنے کی خواہش نے بے قرار کر رکھا تھا۔ لیکن سچ پوچھیے تو فلم کا ایک سین میں آج تک نہیں بھول پایا ۔ جب آسمان سے ایک گھوڑا اترتا ہوا دِکھایا جاتا ہے اور ایک بھاری آواز سے مغل حکومت کی مختصر طور پر کہانی بھی سنائی جاتی ہے۔سچ پوچھیے تو اس وقت میری حالت غیر ہو گئی تھی۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا آنکھیں بند کیے اس سین کے گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔ اس طرح مغلِ اعظم فلم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا اور زندگی میں مغلیہ حکومت کو جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔
تعلیمی دور میں اسکول سے کالج تک دورانِ سفرمغلیہ حکومت کے بارے میں پڑھنے اور جاننے کا خاصا موقعہ ملا۔ جس میں مغلیہ دور کے حکمراں کی شان اور ان کی حکومت کی کامیابی سے لے کر علوم و فنون کی بھی جانکاری شامل تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں مغلیہ حکومت کی عمارتوں کو دیکھ کر ان کی آن بان ا ور شان کا بھی اندازہ ہوا۔سولہویں صدی کے اوائل میں مغلیہ حکومت نے برصغیر پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ لگ بھگ تین سو سال سے زیادہ عرصے تک مغلیہ حکومت نے برصغیر پر حکومت کی تھی۔ یہ ہندوستان کا سب سے بڑا اور سب سے طاقت ور حکمراں کا خاندان تھا ۔ زیادہ تر شہنشاہ اور ان کی ملکہ جس میں ملکہ نور جہاں بھی شامل ہیں آرٹ، فن، موسیقی اور فن تعمیر کے سر پرست ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے عظیم عمارتوں سے لے کر بڑے بڑے شہر، مساجد اور مقبروں کی تعمیر کروائی ہیں۔
معروف مؤرخ روبی لال نے حال ہی میں ‘Empress: The astonishing reign of Nur Jahan’ نام کی ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آج کے دور میں کیوں ملکہ نور جہاں کی لیڈر شپ کو جاننا اہم ہے۔ نور جہاں کا پیدائشی نام مہرالنسا تھا لیکن مغل شہنشاہ جہانگیر سے شادی کے بعد ان کا نام ’نور جہاں‘ رکھا گیا جو کہ شہنشاہ جہانگیر کی پسند تھی۔ ملکہ نور جہاں کی پیدائش برطانیہ کی ملکہ الزبتھ فرسٹ سے کچھ سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ لیکن ملکہ نور جہاں نے برطانوی ملکہ الزبتھ سے کئی گنا زیادہ حصّوں پر حکومت کی تھی۔
شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کی محبت کی داستان آج بھی بڑے ہی شوق سے سنایاجاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کی داستانِ محبت جابجام وجود ہے۔آج بھی ٹور گائیڈ ملکہ نور جہاں کی بہادری کی داستان سناتے ہیں۔ جس میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں سے محبت کی داستان اور نورجہاں کی بہادری کے قصے، کہ کس طرح ملکہ نور جہاں نے ایک گاؤں کو اس شیر سے نجات دلائی جو روازانہ وہاں جا کر شکار کرتا تھا۔اس قصے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ملکہ نور جہاں نے ہاتھی پر سوار ہو کر اس آدم خور شیر کو مار ڈالا تھا۔
زیادہ تر لوگوں نے ملکہ نور جہاں کی صرف داستانِ محبت ہی سنی ہے لیکن بہت کم لوگوں کو ملکہ نور جہاں کی بہادری ، سیاسی حکمت عملی اور طاقتور عزائم کا علم ہے۔ملکہ نور جہاں منفرد لب ولہجے کی شاعرہ، ماہر شکاری اورمغلیہ طرزتعمیر کی معمار تھیں۔انہوں نے آگرہ میں اپنے والدین کے مزارکا ڈیزائن خود تیارکیا تھا جسے بعد میں تاج محل کی شکل میں تعمیر کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
روبی لال لکھتی ہیں کہ ملکہ نور جہاں مردوں کے غلبہ میں ایک ایسی خاتون تھیں جن کا تعلق دور دور تک شاہی خاندان سے نہیں تھا۔لیکن ان کی حکمت عملی اور علمی لیاقت نے ان کو شہنشاہ جہانگیر کی سب سے پسندیدہ بیگم بنا دیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مردوں کے غلبے میں کس طرح ملکہ نور جہاں نے اپنی حکمت اور صلاحیت کا لوہا منوا لیا۔ملکہ نور جہاں کی شاید یہی خوبیاں تھیں جس کی وجہ سے شہنشاہ جہانگیر کو حکومت چلانے میں کامیابی ملی۔
ملکہ نور جہاں کی پیدائش 1577میں قندھار کے قریب ہوئی تھی۔ جو کہ افغانستان کا ایک علاقہ ہے۔ ملکہ نور جہاں کا حسب ونسب ایک مشہور ومعروف ایرانی خاندان سے ملتا ہے ۔ان کاخاندان صفوی حکمراں کی زیادتیوں سے ایران چھوڑ کر مغلیہ علاقے میں آکر بس گیے تھے۔1594میں نور جہاں کی شادی پہلے ایک مغلیہ افسر سے ہوئی تھی۔ جن کے ساتھ وہ بنگال میں منتقل ہوگئی تھیں۔ جب شہنشاہ جہانگیر کو اس بات کا پتہ چلا کہ نور جہاں کا شوہر ان کے خلاف بغاوت کی سازش کر رہا ہے تو انہوں نے اسے گرفتار کر کے آگرہ لانے کا حکم دیا۔ لیکن نور جہاں کا شوہر بنگال کے گورنر کی فوج سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔ بیوہ نور جہاں کو جہانگیر کے حرم میں پناہ دی گئی۔ 1611میں نور جہاں نے جہانگیر سے شادی کر کے ان کی بیسویں بیوی بن گئیں۔ ملکہ بننے کے بعد نور جہاں نے سب سے پہلا شاہی حکم یہ دیا کہ ملازموں کو ان کی زمین کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ ملکہ نور جہاں نے شہنشاہ جہانگیر کو قید سے آزاد کرانے کے لیے فوج کی کمان خود سنبھالی تھی۔
روبی لال کی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے ہم نے آج ملکہ نور جہاں کی مختصر داستان دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس سے دنیا آج غافل ہے۔موجودہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ باورکراتا ہے کہ مغلیہ سلطنت صرف’ اکبر ‘سے شروع ہو کر’ اکبر‘ پرہی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن ملکہ نور جہاں کی کہانی پڑھنے کے بعدہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اس دور میں بھی حکومتی انتظام وانصرام میں خواتین کا رول اہم ہوتا تھا۔ جس کی مثال آج کے دور میں کافی اہم تصور کیے جاتے ہیں۔
آج ملکہ نور جہاں کا مختصرزندگی نامہ اور حکومتی کارکردگی بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ دنیا مغلیہ خاندان اور مغلیہ خاتون کے ساتھ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ ،سماجی فہم وفراست اور حکمرانی کے طریقہ ٔ کار سے بھی واقفیت حاصل کر سکے۔ موجودہ تاریخی اوراق اور آب وہوا شاید مغلیہ سلطنت کے ساتھ انصاف نہ کرسکے لیکن میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ تاریخ کو مٹانا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ آج بھی انسان اپنے عقل و شعور کے ذریعہ سچ اور جھوٹ کا فرق جان سکتا ہے۔تاہم وقتی طور پر اس کی حیثیت اور پہچان مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں پچھلے کئی برسوں سے مغلیہ سلطنت اورمغلیہ بادشاہوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لوگوں کے بیچ نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔جس کی شاید ایک وجہ مغلیہ سلطنت کا ہندوستان میں کامیاب حکمرانی ہے یا مغلیہ حکمراں مسلمان تھے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مغلیہ حکمرانوں کے تئیں اتنی نفرت بھڑکائی جارہی ہے۔آئے دن سڑکوں کے نام جو مغلیہ حکمرانوں کے نام سے منسوب ہے،تبدیل کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں معروف ریلوے اسٹیشن مغل سرائے کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مغلیہ حکمرانوں کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ تاریخی بات کو مذہبی نقطۂ نگاہ سے نہ دیکھ کرافادی پہلوؤں کو دیکھا اور جانا جائے جو سماج اور ملک کی ترقی اور بھلائی میں نمایاں رول نبھا سکے۔ مغلیہ حکمرانوں کی ہندوستان سے محبت سے نہ تو ہم انکار کر سکتے ہیں اور نہ ہی تاریخ اسے جھوٹا کہہ سکتی ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ مغلیہ حکومت کی آن بان، شان وشوکت رہتی دنیا تک برقرار رہے گی اور ہندوستان کو ہمیشہ مغلیہ سلطنت پر ناز رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).