جلد ساز، خستہ حال کتابیں اور غلام حسین


\"akhterشہر کی مصروف ترین سڑک جو سورج طلوع ہوتے ہی گاڑیوں کے شور و غل میں ڈوب جاتی ہے، اسی سڑک پہ رات گئے تک دھوئیں کے بادل راہ چلتے لوگوں کی آنکھوں کو خارش میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ رات کے وقت آسمان پر ٹمٹاتے ستارے بھی دھوئیں کی وجہ سے ماند پڑ جاتے ہیں مگر اب شہر میں ستاروں کو دیکھتا ہی کون ہے جو آسمان کے جگنو ہیں۔ رات کو جب اس سڑک پہ آمد و رفت تھم جاتی ہے اور آس پاس خاموشی ڈیرا ڈالنے لگتی ہے تو ان ڈربے جتنی چھوٹی سی دکانوں کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ جہاں دن کے وقت چند بوڑھے اور جوان ہاتھ ان کتابوں کی عمر میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جنہیں شہر کے باسی اس امید پر ان کے حوالے کر جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر یہ کتابیں نئی زندگی پا چکی ہوں گی۔ یہ ہاتھ ان جلد سازوں کے ہاتھ ہیں جو کئی دہائیوں سے حیدرآباد کی سرفراز چاڑھی اور چھوٹکی گھٹی میں کتابوں کے ساتھ وقت بتاتے نظر آتے ہیں۔

جو سڑک سرفراز چاڑھی کے نام سے مشہور ہے، یہ وہی سرفراز چاڑھی ہے جسے سندھ کے کلہوڑا حکمران خاندان کے چشم و چراغ میان سرفراز کہلوڑو کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ جنہیں سندھ کا تخت اس وقت نصیب ہوا جب میاں غلام شاہ کلہوڑو دنیا سے چل بسے مگر وہ ایک کمزور حکمران ثابت ہوئے۔ دربار کی سازشوں کے شکار کلہوڑا حکمران نے اپنا وقت سازشوں کے گھیرے میں گزارا۔ دربار شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار تو پیدا کرتے ہیں مگر غدار بھی انہیں درباروں سے جنم لیتے ہیں۔ تالپوروں کے حملے نے انہیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔

\"chotkiحیدرآباد شہر کی چھوٹکی گھٹی کسی زمانے میں بڑھئی کا کام کرنے والوں سے بھری رہتی تھی، جہاں پر لکڑی سے فرنیچر اور دیگر اشیاء بنائی جاتی تھیں، رندے کی رگڑ کی بدولت لکڑی سے نکلنے والے چھلکے جابجا پھیلے ہوتے تھے۔ اور وہ اس انداز میں ہوتے تھے کہ گلی کا فرش تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جس کی وجہ سے سندھی زبان میں اس کا نام “چھوڈکی گھٹی” یعنی “چھلکے والی گلی” پڑ گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام بگڑے بگڑتے چھوٹکی گھٹی پڑ گیا۔ پھر یہی گلی بڑھئی کے کاریگروں سے ویران ہو گئی۔ اب نہ جانے وہ بڑھئی کہاں ہوں گے مگر آج کل اس گلی میں کھیلوں کے سامان، کتابوں اور جلد سازوں کی چند دکانیں ہیں۔

اس وقت کا حیدرآباد کیسا تھا اسے صرف تصور کیا جا سکتا ہے مگر آج کا حیدرآباد کیسا ہے اسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں چند لزرتے اور کانپے ہاتھ اپنا پیٹ پالنے کے لیے شب و روز کام کرنے میں مشغول ہیں۔

آج ہم جن کتابوں سے پرلطف ہوتے رہتے ہیں اور انہیں پڑھنا اپنی ایک عادت بنا چکے ہیں، انہی کتابوں نے صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ کبھی کتابیں لکھنے والے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے لگے تو کبھی انہیں کتابوں کو ضبط کرکے مقدمات بنائے گئے۔ مگر کتابوں کی حالیہ صورت یعنی ای بک اور کاغذ پر چھپنے والی \"IMG_2270\"کتابیں یہ اتنی قدیم نہیں ہیں۔ شاید کتابیں لکھنے کا رواج اس وقت سے پڑا ہو گا جب کسی انسان نے درختوں کے پتوں، پہاڑوں کے سینوں اور مٹی کے ٹکڑوں پہ کچھ تحریر کرنا شروع کیا تھا۔ اسی انسان نے اپنے خیالات کو لفظوں کا روپ دے کر تحریری شکل میں اظہار کیا ہوگا۔ ان کے نشانات ہمیں قدیم تہذیبوں میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر کاغذ کی ایجاد کے بعد کتاب ایک مستقل شکل اختیار کر گئی۔

جب تک پرنٹنگ پریس ایجاد نہیں ہوا تھا، اس وقت تک کتابیں خطاط اور کاتبوں کے حوالے ہوا کرتی تھیں۔ ایک کتاب لکھنے میں نہ صرف شدید محنت درکار ہوا کرتی تھی بلکہ ایک کتاب کو لکھنے میں بھی کافی وقت لگ جاتا تھا۔ اس لیے یہ کتابیں بہت مہنگی بھی تھیں۔ جنہیں چند گنے چنے لوگ ہی خرید کر سکتے تھے کیونکہ کہ ان کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ لیکن 15ویں صدی میں جرمنی کی جانب سے ایجاد کردہ پرنٹنگ مشین نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ جس کے بعد کتابوں کی چھپائی ایک آسان کام بن گیا اور کتابیں اچھے خاصے تعداد میں چھپنا شروع ہو گئیں۔ جس میں محنت بھی کم ہونے لگی، جو کتابیں کسی زمانے میں مہنگے داموں بکتی تھیں وہی اب ایک عام آدمی کی دسترس میں آ گئیں۔ اور کتابوں نے دنیا کے کتنے ہی ذہنوں کو تبدیل کر دیا۔

غلام حسین کا خاندان پچھلے 25 برسوں سے خستہ حال کتابوں کی حالت بہتر کرنے کا کام کر رہا ہے۔ اپنے بھائی کی وفات کے بعد اس نے ہی یہ دکان سنبھالی ہے۔ \"IMG_2294\"جہاں وہ اپنے بوڑھے ہاتھوں سے مزدوری کرکے چند روپے کما رہا ہے۔ میں جب تک اس کے ساتھ تھا اس کے چہرے پر غصے کے کئے رنگ چڑھتے اور اترتے دیکھے۔ اپنے کانپتے اور لرزتے ہاتھوں سے اس وقت بھی وہ انہی کتابوں کی جلد سازی کر رہا تھا جو اسے شام تک واپس کرنا تھی۔ کتابوں کی جلد سازی میں گتے، کاغذ، میدے سے بنی لئی، دھاگے اور گوند کا استعمال کیا جاتا ہے۔

“اب مزا نہیں رہا ہے اس کام میں، اس سے پہلے کا زمانہ بہت اچھا تھا، اگر میرے بھائی کا انتقال نہ ہوا ہوتا تو میں اس پیشے میں کبھی نہ آتا مگر یہ سب اس ظالم پیٹ کی وجہ سے کیے جا رہا ہوں”۔ اس نے پیٹ پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ وہ کام میں ہی مشغول رہا اور بڑ بڑاتا رہا۔ اس وقت اس سے سب سے زیادہ غصہ حکومت وقت پہ تھا۔

غلام حسین کی آنکھوں سے مایوسی بار بار جھانک رہی تھی، روڈ پہ دوڑتی ٹریفک کے شور میں بھی میری مکمل توجہ اس کی باتوں پہ تھی۔

“اب ایسا کیا ہوا ہے کہ آپ کو اس پیشے میں مزا نہیں آتا اور پہلے ایسا کیا تھا”.میں نے پوچھا

\"IMG_4337\"اس نے اپنے ہاتھ روک لیے اور کچھ دیر تک مجھے تکنے لگا پھر اس نے کہا۔ “بابو جی پہلے ہمارے قدردان ہوا کرتے تھے، کتابوں کو بھی لوگ اہم سجھتے تھے۔ ہمیں اپنے کام سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ مہگنائی نہیں تھی۔ اس لیے جتنا بھی مل جاتا تھا، اس میں گزارا چل جاتا تھا۔ اب نہ تو اتنی کتابیں آتی ہیں اور نہ ہی کمائی رہی ہے”.

مجھے اس نے وہ کتابیں بھی دکھائیں جن کی جلد سازی وہ کر چکا تھا۔ اب ان دکانوں پہ زیادہ تر مذہبی کتابوں کی جلد سازی ہی کی جاتی ہے۔ مگر کسی زمانے میں اسکولوں میں پڑھنے والے تمام طلبا کو بائینڈ کی ہوئی کتابیں ہی ملتی تھیں، تاکہ وہ طویل مدت تک چل سکیں اور پھر وہی کتابیں ضرورتمند طلبا کو دی جاتی تھیں۔ مگر اب وہ سب روایات دم توڑ چکی ہیں۔ یہ جلد ساز یومہ دو سو سے چار سو تک کما لیتے ہیں۔ غلام حسین کا کہنا ہے کہ اس نے آمریکا اور دیگر ممالک سے آئی ہوئی کتابوں کی جلد سازی بھی کی ہے۔ ان جلد سازوں کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان کی سرکاری سطح پہ سرپرستی کی جائے۔

اسی سڑک پہ ٹریفک رواں دواں تھا، دھوئیں کے بادل روز کی طرح فضا میں نمودار ہو رہے تھے۔ اور غلام حسین پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ میں نے اسے اپنا کام کرتے دیکھ کر اپنی راہ لی، جسے سارے زمانے سے شکایت ہے۔

اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ اس کی زندگی ایک ایسی کتاب ہے جسے کوئی جلد ساز نہیں مل سکا۔ اور زندگی کی کتاب کا ہر ورق گزرتے وقت کے ساتھ پھٹا جا رہا ہے۔

 

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments