تبدیلی کا سراب


کچھ لفظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی سماعت فقط کانوں تک محدود نہیں ہوتی اُنہیں سنتے ہی سارے بدن میں سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے دِل میں لہر سی اُٹھتی ہے اور تصور کی آنکھ خوش گمانی سے بھرپور منظر کشی کرنے لگتی ہے لفظ ” تبدیلی“ کی سنسنی خیزی بھی کچھ اتنی ہی طلسماتی ہے اس لفظ کا جادوئی کمال ہے کہ اِسے سنتے اور پڑھتے ہی جس کھلی فضا میں سانس بھرنے کافسوں ذہن میں در آتا ہے وہ خوش خیالی اتنی پُر کشش اور مسحُور کن ہے کہ ہم اس لفظ کے نتائج کی یقین دہانی کا تقاضا اپنے آپ سے بھی کرنے لگتے ہیں اور اُس شخص سے بھی جس نے یہ لفظ بطور وعدہ ہمارے سامنے ادا کیا ہوتا ہے۔

یہ بار بار کی یقین دہانی ہمارے آس پاس ایک تصوراتی حصار بُن دیتی ہے جسے مثالی ریاست (یٹوپیا) ھی کہا جا سکتا ہے یا ”پرآسائش خیالی پناہ گاہ “ (کمفرٹ زون) بھی اور ہم اُس خود ساختہ قیاس گاہ سے باہر نکلنا تو در کنار جھانکنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہماری شناسائی اندھے موڑ کی اُس جانب اَن دیکھے متوقع منظر کے ساتھ دیرینہ اپنائیت کی ایک ایسی جست بھرتی ہے کہ ہمیں اپنی” تصوراتی مثالی دُنیا “ سے جنونی عشق ہو جاتا ہے اس ”تصوراتی مثالی دُنیا “ کے تمام تر حوالے یا تو صدیوں پرانے کسی مقدس تاریخی باب کے منور زمانوں کی خواب آلود خوش خیالی سے وابستہ ہوتے ہیں یا پھر آنے والے زمانوں میں ہماری خوش نیتی اور یقینِ محکم کے دھندلکوں سے جُڑے ہوتے ہیں۔ رہی بات موجودہ دَور کی تو فی زمانہ آئیڈلزم کی تحریک سات سمندر پار کے وہ معاشرے بن جاتے ہیں جنہیں ہم فی الحال بہت دُور سے ہی دیکھ سکتے ہیں اور اُن کے زمینی حقائق کی ناہمواریوں سے آگہی ممکن نہیں ہوتی۔

نفسیاتی طور پر ” آزادی“ تو دُور کی بات ایک روزن بھی تازہ ہوا کے جھونکے یا روشنی کی کرن کا پیغام لے کر معمول کے اس زنداں میں کھُل جائے تو ”تبدیلی“ کا تجربہ کرنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے جو بہت خوش کُن اور متحرک ہوتا ہے۔

یکسانیت اور جمود کو ایک ہی ضرب میں توڑ دینے کا با آوازِ بلند ارادہ باندھنے والا نتیجتاًمیرِ کارواں تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ مروّجہ اور موجودہ صورتحال کا جبر ایک ایسی قیدِ بامشقت ہے جس میں کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی چکر میں گول گول گھومنا ہمیں تھکا دیتا ہے اور اس جبر سے فرار ہر ذی روح کے لیئے باعث کشش ہوتا ہے۔ آسمانی صحیفے بھی تبدیلی کی ہی بشارت لے کر ودیعت ہوتے رہے ہیں تبھی اپنے اپنے عہد میں اکثریت کے اندر بے انتہا مقبولیت اور قبولیت سے ہمکنار ہوئے جِن گروہوں کے مفادات ” سٹیٹس کو” کے ساتھ وابستہ تھے اُن کے لیئے تبدیلی کا پیغام ناقابل قبول تھا اور اس تنازعے اور تصادم نے ”پیغامبری “ کو مزید شہرت سے نوازا۔

یہ ہی وجہ ہے ہر دَور میں ” دین فروشی “ اور ” دین فراموشی “ دونوں بازار اِسی تبدیلی کے کھوٹے اور کھرے سکے سے گرم ہوتے رہے۔ ”تبدیلی” بمقابلہ ” انقلاب” عملی سطح پر قریب از امکان دکھائی دیتی ہے اس لیئے سچی نظر آنے لگتی ہے جبکہ انقلاب بطور سیاسی نعرہ جھانسے کا تاثر دیتا ہے اور یوں بھی تاریخ میں درج ہر انقلاب نے بعداز انقلاب مزید تبدیلی کی گنجائش کا مطالبہ کیا۔ اور اگر اِن دونوں منظر ناموں کو ایک منظر نامے میں ضم کیا جائے تو ”انقلابی تبدیلی” کے الفاظ بھی بعید از فہم نہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا ”انقلابی تبدیلی“ صرف فرد کی زندگی میں ممکن ہوتی ہے یا یہ بھی انقلاب کی طرح ایک اساطیری تصور ہے یہ بھی تو ممکن ہے فرد کے اندر پہلے سے موجود فکری جزئیات کو عمر کے کسی مقام پر تائید کے نتیجے میں لاشعوری یا شعوری سطح پرخرد افروزی کا گیان ہو جاتا ہے اور یہ شاید اس لیئے ہوتا ہے کہ وہ تمام خصلتیں جو شخصیت کے کسی گوشے میں پنپنے سے گریزاں تھیں اُنہیں مطالعہ ، مشاہدہ یا کسی تجربے سے تقویت مل جاتی ہے تو اُسے روحانی سطح پر کشف کا نام دے دیا جاتا ہے اور فرد سمجھتا ہے کہ کسی پیش رفت یا دریافت کے نتیجے میں وہ ابہام کے دریا سے اُس پار اُتر آیا ہے یوں وہ فکری نرگسیت کے بہاﺅ میں بہہ کر بہل جاتا ہے۔

 کیا قوم کی سطح پر اجتماعی تبدیلی فریبِ خیال ہے یا تاریخی حقیقت۔۔؟ یہ سوال تحقیق اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے لیکن سامراجی قوتوں کو خونریزی یاجنگ وجدل سے شکست دینے کے بعد ریاست بنا لینے سے سلطنتوں کے نئے اقدامات کو ”انقلاب” سمجھنا کس حد تک حقیقی معنویت کے قریب ہے گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے البتہ ہم اپنی موجودہ صورتحال کا جائزہ قریب یا دُور سے بھی لیں تو پتہ چلتا ہے مجموعی طور پر بحیثیت قوم ”ازلی خود ترسی “ کا شکار ہیں اور اس یقین میں پختہ ہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر کسی آسمانی مدد کے ہاتھوں ” انقلابی تبدیلی” کا سب سے پہلا حق ہم ہی رکھتے ہیں۔

اس بے یارو مدد گاری اور بے بسی کے احساس کو تب اور بھی شدّت اور گہرائی مل جاتی ہے جب ہم وسائل اور دُنیاوی ترقی کے مواقع کو بمقابلہ ترقی یافتہ اقوام کے اپنے ہاں نہ ہونے کے برابر دیکھتے ہیں۔

اس کم مائیگی کے احساس نے خود استحصالی self exploitationکی ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جسکی لپیٹ میں راہنما بھی ہیں اور عوام بھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم انفرادی سطح پر بھی اور قومی سطح پر بھی شدید احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بے یقینی اور مایوسی ہمیں صرف دو ہی راستے سجھاتی ہیں یا تو خود کو دُور دراز کی صدیوں پرانی قبائلی اور صحرائی تصوراتی مثالی شان و شوکت کے ساتھ وابستہ کر لیا جائے اور اپنی شناخت کو اعلیٰ و ارفعیٰ سمجھ لیں یا پھر اپنی خوش نیتی اور نیک تمناﺅں کے الاﺅ سے جذبوں کو گر مائے رکھیں کہ ایک نہ ایک روز بعداز مرگ ہی سہی اس ملک میں ہاتھ پھیلانے والا کوئی نہ رہے گا۔

کیا ہمیں یہ سمجھ لینے کی ضرورت نہیں کہ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر انقلاب اور تبدیلی حقیقی معنوں میں اپنا کوئی تاریخی وجود نہیں رکھتے ہیں البتہ واقعات ضرور رونما ہوتے ہیں جنہیں ظاہر کی آنکھ سے تبدیلی یا انقلاب کا لیبل لگایا جا سکتا ہے البتہ غور و فکر کے نتیجے میں اگر دیکھا جائے تو معمہ کھلتا ہے کہ باطنی سطح پر ایک خاص دھیرج کے ساتھ بصیرتوں پر سے دُھند ضرور چھٹتی ہے تو بصارت بھی واضح ہونے لگتی ہے اور اِسی کو ارتقائی عمل کہا جا سکتا ہے۔

کاسمیٹک کی دُنیا میں بوٹاکس اور فیس لفٹنگ کے اطلاق سے ڈرامائی تبدیلی تو ممکن ہے لیکن قوموں کی ترقی بڑے سے بڑا معاشی انقلاب بھی اُس وقت نہیں لا سکتا جب تک وہ تہذیبی ارتقا کے عمل سے نہ گزریں۔ ہمیں بھی فی زمانہ ایک حقیقت پسند تمدنی ارتقا کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی عسکری یا نیم عسکری ریاست میں ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا اسکی وجہ یہ ہی ہے کہ قانون کی بالادستی اور کمزور کے لیے طاقت کی دھونس دو مختلف اور متضاد صورت احوال ہیں دھونس کی غذا ہر وہ استحصال ہے جسکے اندر مقنا طیسی قوتیں سادہ لوح محکموں پر ” مورل اتھارٹی” کا ناقابل ازالہ اختیار دھمکانے کی چھوٹ دے سکتا ہو اور مذہب کے ساتھ جذباتی وابستگی نے بحیثیت قوم ہمیں ایک جنونی کیفیت میں جکڑ رکھا ہے کہ ہم ڈنکے کی چوٹ پر معذرت خواہانہ رویہ رکھتے ہوئے اپنے اپنے عقیدے کو ” اصل ایمان “ کا نام دیئے ہوئے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ اکیسویں صدی میں اقوام کی ترقی معیثت کے شراکت داروں کی صفیں درست کرنے پر منحصر ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مستقبل کے لیئے پائیدار حکمت عملی ایک خالصتاً دیانتدارانہ پیشہ ور سوچ سے ہی ممکن ہے۔ غیر جانبدارانہ رویوں کو اپناتے ہوئے تعصبات سے پاک ،رواداری کا کلچر جنم لے گا تو ارتقا ءممکن ہے جب تک مکالمے کی فضا بحال نہ ہو گی جوابی بیانیہ سامنے نہیں آ سکے گا ریاستی سطح پر ہر نوعیت کے دانش کدوں کو بیانیئے کی دعوت ، فکری کشادگی سے دینا ضروری ہے اور جب تک آزادی اظہار کو  institutionalizeنہیں کیا جائے گا ”فکری آزادی“ کو تحفظ نہیں مل سکے گا۔ تعلیمی اداروں کی سطح پر فری تھنکنگ کو فروغ دینا ہو گا نظریاتی اختلاف پر عدم برداشت کی حوصلہ شکنی تبھی ممکن ہے جب تخلیق کاروں کے لیئے مساعد حالات پیدا کیئے جائیں گے۔ جمالیات اور فنونِ لطیفہ کے فروغ سے ہی تخلیقی ذہنوں کی آبیاری ممکن ہے فکر کی کشادگی ، نظر کی کشادگی کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور انتہا پسندی کا جوابی بیانیہ اُسی صورت میں نکھر کر سامنے آئے گا جب تک ہم تہذیبی ارتقاءکو فروغ نہ دیں گے اور فنون کی سطح پر تخلیقی عمل کی راہ ہموار نہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).