حبیب جالب کے زیر تربیت انقلابی کی گُم شدگی


?

سوشل میڈیا میں ’’تلاش گُم شدہ‘‘ کا ایک اشتہار نظر سے گزرا، جس میں لاپتہ فرد کو حبیب جالب کا ماننے والا اور خلائی مخلوق کا منکر بتایا گیا تھا۔ اگر شہباز شریف صاحب سے ہماری بے تکلفی ہوتی تو اس اشتہار کا مکمل متن آپ کی تفنن طبع کے لئے یہاں نقل کیا جاتا۔

سوشل میڈیا کی یہ دُرفنتنی برطرف مگر یہ حقیقت ہے کہ شہباز صاحب اپنے عدم تحرک کے باعث بہت جلد نظروں میں آ گئے ہیں۔ نئی حکومت نے نہایت فیاضی سے پہلے دو ہفتوں میں اپوزیشن کو سیاست چمکانے کے مواقع فراہم کئے لیکن شہباز شریف نے ان سے فائدہ اُٹھانا تو درکنار، روایتی، خانہ پُری والی بیان بازی سے بھی گریز کیا۔ چھوٹے میاں صاحب اس دوران چُپ چُپ بلکہ کھوئے کھوئے رہے۔ کبھی کبھی نیب کی پیشی پر اُن کی زیارت ہوتی رہی، اور بس۔ یہ صورتِ حال حکومت کے لئے کافی حوصلہ افزا اور مسلم لیگ نواز کے حامیوں کے لئے انتہائی باعثِ اضطراب ہے۔

شہباز شریف کو اپنے طویل سیاسی کیریئر میں پہلی دفعہ حالات نے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ منتظم کی سطح سے اُوپر اُٹھ کر لیڈر بن سکیں، لیکن اُنہوں نے بہت سُرعت سے، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر، اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اُنہوں نے بھرم رکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی، اُنہوں نے لیڈر بننے کی اداکاری تک کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ایک عالی شان منتظم ہیں، ’’پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا‘‘ والے منتظم۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ تیسری دُنیا کی سفاک سیاست، سیاست دانوں سے کچھ اور کوائف کا مطالبہ بھی کرتی ہے، ایسے کوائف جن کا شہباز شریف کو دعویٰ ہی نہیں ہے۔

پرویز مشرف کا مارشل لا لگا تو شہباز شریف بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے تھے لیکن اہلِ وطن نے کبھی اُن کی زبان سے آلامِ صید و جبرِ صیاد کا کوئی تذکرہ نہیں سُنا۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد اُن کے برادرِ خورد کا مشورہ تھا کہ جی ٹی روڈ کی سیاست سے حذر کیا جائے، اور اُس دن اُن کی بیگم تہمینہ دُرانی کے بیانات دراصل شہباز صاحب کا بیانیہ تھا، جن کا لُب ِ لُباب یہ تھا کہ میاں صاحب کی سیاست اُن کے چھوٹے بھائی کو بھی مشکل میں پھنسا دے گی۔ دوسرے لفظوں میں، شہباز شریف نے کبھی یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ وہ مشکل سیاست کر سکتے ہیں۔ اور جب مشکل سیاست کا موجودہ رائونڈ شروع ہوا تو پہلے ہی دِن، یعنی 13جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کی لندن سے واپسی والے دِن، شہباز شریف نے ہاتھ اُٹھا دیے تھے۔ اُس دن وہ ایئر پورٹ اِس لئے نہیں پہنچ پائے کہ غالباًاُن کا ایسا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔ اُنہوں نے جلوس کے اختتام پہ تقریر بھی کچھ ساتھیوں کے اِصرار پر کی تھی، وہ بھی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے۔ اس پس منظر میں، شہباز شریف سے کیا شکوہ کیا جائے۔

اپنے بھائی کے سیاسی عقائد و نفسیات سے نواز شریف سے زیادہ کون واقف رہا ہو گا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ نواز شریف کیا سوچ کر پاکستان واپس آئے تھے؟ اُنہیں معلوم تھا کہ وہ ایئرپورٹ سے سیدھے جیل جائیں گے، اُنہیں یقین تھا کہ سسٹم اُن کے خلاف لوڈڈ ہے، اُنہیں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ دُور دُور تک اس نظام میں اُن کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تو پھر وہ کیوں واپس آئے؟ دس سال کی جیل کاٹنے؟ اپنی بیٹی کو سات سال کی قیدِ تنہائی کی نذر کرنے؟ کیا وہ اس لئے واپس آئے کہ وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے ایک با اصول اور جرأت مند لیڈر کے طور پہ یاد رکھے جائیں؟ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ میاں صاحب اور اُن کی بیٹی کی جیل یاترا نے مریم نواز کے روشن سیاسی مستقبل پہ مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے اور اگر میاں صاحب واپس نہ آتے تو اُن کی پارٹی مزید ابتری کا شکار ہو جاتی، جو شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کے لئے ایک بُری خبر ہوتی۔ لیکن یہ تو مستقبل کی باتیں ہیں، جبکہ لمحۂ موجودکے مطالبات کچھ اور ہیں۔

آج کی حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز جیل میں ہیں، اور اُن کے تمام ہمدردوں کی اُمیدوں کا محور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو جج ہیں۔ انصاف کی توقع رکھنا مثبت بات ہے، لیکن بہرحال یہ کوئی سیاسی حکمت ِعملی تو نہیں ہے۔ عدالتیں اپنا کام کرتی ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے میدان میں رُو بہ عمل رہتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون کی موجودہ قیادت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی غیبی مدد کے انتظار میں ہے۔

اس صورتِ حال میں نواز شریف کے حق میں شاید ایک ہی بات ہے، اور وہ ہے ’’میاں صاحب آئی لو یو‘‘ والا مجمع جو آج بھی جم کے نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ میاں صاحب تاحیات نا اہل قرار دیئے گئے ہیں، وہ اپنی سیاسی وارث سمیت جیل میں بند ہیں اور اُن کی پارٹی کو حکومت نہیں بنانے دی جائے گی، پھر بھی نواز شریف کو ووٹ دیا ہے۔ یہ ’’سورج مکھی فطرت‘‘ پنجاب کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے جو شاید اس صوبہ میں ایک نئی طرزِ سیاست کا نقطۂ آغاز ثابت ہو۔ بہرحال یہ ہے وہ مجمع جو حیرت سے شہباز شریف اور اُن کی نیم دلانہ سیاست کی طرف دیکھ رہا ہے، یہ سوال کر رہا ہے کہ شہباز شریف صاحب نے اعلان کیا تھا کہ عید کے بعد ’’نواز شریف کو انصاف دو‘‘ تحریک کا آغاز کیا جائے گا، اُس کا کیا ہوا؟ کیا وقت آ گیا ہے کہ پی ایم ایل نون کو Collective Leadership کے تصور کو آزمانے کی ضرورت ہے، کوئی ’’رابطہ کمیٹی‘‘ نما سیٹ اپ، جس میں راجہ ظفر الحق، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، پرویز رشید جیسے لوگ شامل ہوں؟

وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں، مہا یُدھ کا شوق اپنی جگہ، اور اُس کی طویل تیاری اپنی جگہ، میاں صاحب تو حضرتِ علاّمہ کے پیروکار نکلے جن کا فرمانا ہے کہ ’’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).