سابق صدر کی ڈائری، بر بوتل ہائے دو عدد


آج وطنِ لذیذ سے ایک گل گلاب رفیقۂ دیرینہ کی مختصر مگر جامع ای میل موصول ہوئی ہے۔ اس نے ایسا دلسوز کلام کیا ہے کہ تڑپ کر رہ گیا ہوں۔ لکھا ہے:

ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

میں اہل وطن کے ان جذبات کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ ملک کے طول و عرض سے ملنے والے جذباتی پیغامات سے مجھے خوب ادراک ہے کہ لوگ میری ولولہ انگیز قیادت کے فراق میں کتنے اداس ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میری ہجرتِ مجبورانہ کے بعد دیار غیر میں وطن لذیذ کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں کم ہی آتی ہیں، ورنہ میرے دور میں تو دنیا ہمارے ملک کی مثالیں دیتی تھی۔

اب تو اچھی خبر سننے کو دل ترس گیا ہے۔ کل ٹی وی پر شرجیل میمن سے برآمد ہونے والی شہد اور زیتون کے تیل کی دو بوتلوں کا غوغا سنا تو دل کے پھپھولے جل اٹھے۔ مجھے ایسی ہی ایک ”آپ بیتی‘‘ یاد آ گئی۔ ماضی قریب کے اس افسوسناک قصے کی اساس بھی دو عدد بوتلیں ہی ہیں، جو ہجرت مذکورہ کے بعد میری ایک اور رفیقۂ دیرینہ کے ساتھ پیش آیا اور وہ آج تک ”پیش‘‘ ہو رہی ہے۔

جیسے شرجیل میمن کی بوتلوں سے شہد اور زیتوں کا تیل نکلا ہے، اسی طرح رفیقہ ہٰذا کی بوتلوں میں بھی جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ دوا تھی مگر خدا اسے ہدایت دے، ہمارا میڈیا رائی کو پہاڑ بنانے کا فن خوب جانتا ہے۔ میں پوری صراحت (اس کو صراحی نہ پڑھا جائے) کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ حقائق تاریخ اور قوم کی امانت ہوتے ہیں، لہٰذا آج میں نے ماضی کے اس بے سروپا سکینڈل سے متعلق تمام حقائق منظر عام پر لانے اور بد نام زمانہ دو عدد بوتلوں کا کچا چٹھا کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

یادش بخیر! ہوا یوں کہ ماضی قریب میں جب عہدہ صدارت کو مجھ سے چھڑانے کے لئے تحریک زوروں پر تھی تو میں نے اپنے ایک رفیق خاص کو مشورے کے لئے ایوان صدر طلب کیا، جو آئین کی مختلف شقوں کا ملک شیک بنانے کے ماہر تھے۔

آپ اس دفعہ کوئی ”آئینی مشورہ‘‘ دینے کی بجائے مبینہ طور پر روحانیت کی طرف جا نکلے۔ بولے ”سر! میں آپ کو رفع شر کے لئے ایک ”دربارِ عالیہ‘‘ پر لے کر جانا چاہتا ہوں‘‘۔ میں کچھ سوچ کر تیار ہو گیا۔ دو دن بعد وہ صاحب مجھے اور موصوفہ کو ساتھ لے کر خفیہ دورے پر اپنے ضلع کے مضافات کی طرف روانہ ہو گئے۔ خاصے طویل اور دشوار گزار سفر کے بعد ایک جنگل کے بیچوں بیچ ہماری گاڑیاں رک گئیں۔

میری نظر لیرو لیر جھنڈوں سے مزین درختوں کے جھنڈ میں ایک مرقد اور کچے سے حجرے پر پڑی۔ میرے استفسار پر رفیق خاص نے بتایا کہ یہی وہ ”دربارِ عالیہ‘‘ ہے۔ مجھے سخت مایوسی ہوئی۔ وہاں کوئی عالیہ وغیرہ نہیں تھی، فقط چار ملنگ دنیا و ما فیہا سے بے خبر حجرے کے سامنے بیری کے بڑے سے درخت کے نیچے بیٹھے لنگری میں کچھ گھوٹ رہے تھے۔ چہار سو پھیلی خاموشی میں گھوٹنے کے ساتھ بندھے گھنگروئوں کی آواز سے عجیب سی مسحور کن موسقیت پیدا ہو رہی تھی۔

ہم ان کے قریب گئے تو ملنگ ہمیں دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے۔ انہوں نے فوراً ایک چٹائی صاف کرکے بچھائی اور ہمیں بیٹھنے کی دعوت دی۔ میں نے لنگری کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ ایک ملنگ ہاتھ جوڑ کے بولا ”موتیاں آلیو! یہ گرین لیبل ہے‘‘ انہوں نے فوراً ہمیں مٹی کے پیالے بھر کر پیش کئے مگر ہم نے ایسی ”واہیات لیبل‘‘ پینے سے معذرت کر لی۔

اتنے میں لمبے سے سبز چولے میں ملبوس اور گلے میں ڈھیر ساری تسبیحاں ڈالے حجرے سے ایک سفید ریش بزرگ دھیمی چال کے ساتھ برآمد ہوئے اور سلام دعا کے بعد ہمارے سامنے چٹائی پر بیٹھ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ وہی روحانی ہستی ہیں، جن کے پاس ہم ”رفع شر‘‘ کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔

رفیق خاص نے تعارف کرایا۔ بزرگوار نے میری رفیقۂ دیرینہ پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور سر جھکا کر زیر لب بڑبڑائے ”کھنڈرات بتاتے ہیں کہ عمارت شاندار تھی‘‘ میں سمجھ گیا کہ بزرگ خاصے کائیاں اور دور تک پہنچے ہوئے ہیں۔ میں نے مدعا بیان کیا تو بابا جی نے جواب میں ایک لمبا توقف کیا۔ اس دوران آپ نے گرین لیبل کا ایک پیالہ نوش فرمایا اور پھر گویا ہوئے ”اقتدار آنی جانی شے ہے بچہ! البتہ جوانی جا کر واپس نہیں آتی… اس کی فکر کرو‘‘.

آپ نے کن انکھیوں سے موصوفہ کی طرف دیکھا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا ”تاہم میں جنگلی جڑی بوٹیوں سے ایسا نسخہ تیار کرتا ہوں کہ جس سے نہ صرف جوانی لوٹ آتی ہے بلکہ اس کے مسلسل استعمال سے بندہ سدا جوان بھی رہتا ہے‘‘۔ رفیقۂ دیرینہ اور میں نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ المختصر! بابا جی نے ہم دونوں کو ازراہِ کرم نسخے کی ایک ایک بوتل عنایت کی، جسے لے کر ہم واپس لوٹ آئے۔

کوئی دو ہفتے تک نسخہ استعمال کرنے کے بعد میں طبیعت میں عجیب سی خان بہادری محسوس کرنے لگا۔ پھر اس دن تو میں حیران رہ گیا جب ایک تقریب میں موصوفہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے چہرے پر وقت کے چھوڑے نقوش تیزی سے مٹ رہے تھے اور میک اپ کے باوجود نہ مٹنے والی جھریوں کی جگہ اس کے عارض و رخسار سے شفق کے رنگ پھوٹ رہے تھے۔

میں نے اسے ملکہ حسن و جمال قرار دیا تو جواب میں اس نے مجھے شہزادہ بدیع الجمال۔ کہنے لگی ”سر! دعا کریں کہ میں ہمیشہ یونہی جوان رہوں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی توانائیاں خرچ کرتی رہوں‘‘۔ میں بھی اللہ کے فضل سے بڑا عقاب چشم واقع ہوا ہوں۔ سو میں نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

اگرچہ حاضرین مجلس نے مل کر با آواز بلند ”آمین‘‘ بھی کہا تھا، مگر صد افسوس کہ میری دعا قبول نہ ہوئی اور اس پری وش کی ”جوانی‘‘ کو داغ لگ ہی گیا۔ دو بوتل مقدمہ کے اندراج کے بعد دیار غیر میں اس کی لانگ ڈسٹنس کال موصول ہوئی۔

وہ اپنے خلاف ہونے والی سازش پر رو رہی تھی۔ میرا دل دکھی ہو گیا، میں نے اسے کہا کہ تمہاری کال ”لانگ‘‘ بھی ہے اور ”ڈسٹنس‘‘ بھی بہت ہے۔ تم دونوں کو ”شارٹ‘‘ کرو تو صحیح حالات سے آگاہی ہو۔

ملاقات میں اس نے انکشاف کیا ”آپ تو بھرا میلہ چھوڑ کر ”دربارِ عظمیٰ‘‘ میں آ بیٹھے، جبکہ میں نے ”دربارِ عالیہ‘‘ پر حاضری جاری رکھی اور نسخے کی بوتلیں لا، لا کر اس سے حاصل ہونے والے جوان خون سے آپ کی سیاسی جماعت کے چمن کو سینچتی رہی۔ اس دن بھی میں دربارِ عالیہ سے دو بوتلیں لے کر آ رہی تھی کہ ایئر پورٹ پر دشمنوں کی گہری اور سوچی سمجھی سازش کا شکار ہو گئی‘‘۔

دنیا جانتی ہے کہ میں عدالتوں کا بے پناہ احترام کرتا ہوں اور ان کے کام میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہوں، تاہم آج ان حقائق سے پردہ اٹھانے کا مقصدیہ بتاناہے کہ ہمارے ملک میں چند عناصر غلط معلومات فراہم کر کے توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

میرے اور عدلیہ کے درمیان بھی انہی عناصر نے غلط فہمیاں پیدا کیں، جس کا نتیجہ ہجرتِ مجبورانہ متذکرہ کی صورت نکلا۔ میری عادلانہ طبیعت کہتی ہے کہ اگر شرجیل میمن کی بوتلوں سے کوئی قابل دست اندازیٔ پولیس چیز برآمد ہوئی ہے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

اگر ان سے شہد اور تیل نکلا ہے تو عدل کا تقاضا ہے کہ میڈیا ہسپتال میں داخل ایک مریض کا تیل نکالنا بند کر دے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ میری رفیقۂ دیرینہ کی بوتلوں سے جڑی بوٹیوں کی دیسی دوا ہی نکلی تھی۔ ان سے کسی غیر قانونی چیز کی برآمدگی کے الزام میں اتنی ہی صداقت ہے، جتنی ٹی وی کے خبرنامہ میں ہوتی ہے۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).