گلزار صاحب بھی ”ڈنگ ٹپاؤ“ ہیں!


اردو اشعار میں بہت دلچسپ غلطیاں ہیں جو ذرا سے غیر شعوری ردو بدل سے یوں بگڑی ہیں کہ اصل سے بہتر دکھائی دیتی ہیں۔ یاد رکھیئے صرف دکھنے میں بہتر ہیں ویسے ہر چند کہیں کہ بہتر ہیں، نہیں ہیں۔ اشعار سے متعلق پچھلے بلاگ میں ٹائپنگ کی غلطیوں نے مضمون کا مزا کرکرا کر دیا ( یہ بھی عیبِ تنافر ہے) جس کے لیے معافی کا خواستگار ہوں۔

گلزار صاحب کا لکھا ایک گیت ہے جس کی انسپیریشن یقیناً غالب ہیں، ” دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن / بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے“۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ غالب کے ہاں لفظ ” دل“ نہیں ” جی“ ہے جب کہ زیادہ بڑی غلطی اس شعر کے بنیادی فہم میں ہے۔ غالب کہتے ہیں، ” جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن بیٹھیں رہیں تصور جاناں کیے ہوئے“۔ یعنی فرصت کے رات دن ڈھونڈے نہیں جا رہے بل کہ غالب ایسی فرصت کے متمنی ہیں جس میں ” کہ بیٹھیں رہیں تصور جاناں کیے ہوئے“۔

گلزار صاحب سے ایسی غلطی کی توقع ہر گز نہ تھی۔ چلیں سمجھ لیتے ہیں کہ فلمی گیت ہے اور تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کا حق شاعر رکھتا ہے گو کہ شاعر حضرات کا بس چلے تو چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ محبوب کی نیم تاریک گلیوں تک پھیلا دیں، صرف تصور جاناں پر موقوف نہ رہے یہ سلسلہ۔ بہر حال یہ تو ہمیں علم ہے کہ گلزار صاحب کی بہت گہری نظر ہے انگریزی ادب پر اور اپنے مشہور ڈرامہ، ” مرزا غالب“ کے آغاز میں ہی، ٹی ایس ایلیٹ سے مستعار، ” پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں“ ( یہ TS Eliot کے Love song of J Alfred Prufrock) جیسے اظہار سے ان کے انگریزی ادب سے شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔

بات صرف ایک غلطی تک رہتی تو شاید میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے گلزار صاحب پر حملہ آور نہ ہوتا لیکن دو غلطیاں ایک ساتھ پا کر بھی میں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاؤں تو بہت غیر پیشہ وارانہ حرکت ہوگی۔ پروفیشنل ازم کا تو اصل دارومدار ہی دوسروں کی کمزوریوں پر کھیلنا ہوتا ہے نہ کہ اپنی خوبیوں پر۔ صرف اپنی خوبیوں پر کھیلنے والے بیچارے اچھے انسان ضرور ہوتے ہیں لیکن ساری زندگی ہاتھی کے کھونٹے سے بندھے رہتے ہیں۔ ویسے تو ہم خود بھی اسی کھونٹے سے بندھے ہیں تو سوچنے کی بات ہے کیا تیر مار لیا بڑے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کر لیکن کیا کروں اس میں ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے والا حساب ہوتا ہے۔ چلیے گلزار صاحب کی پگڑی اچھالیں۔

ذرا ملاحظہ کیجیے کہ اسی ڈرامہ میں غالب کی ایک غزل جگجیت صاحب نے گائی ہے اور غزل ہے، ” آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک“۔ کیا غزل ہے اور کیا اچھی نبھائی ہے جگجیت صاحب نے لیکن مصرعہ کچھ یوں ہے، “ آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہوتے تک / کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک“۔ بس اب آپ لفظ“ ہونے“ کی جگہ ” ہوتے“ لگاتے جائیے اور غزل کا مزا دوبالا ہوتا جائے گا۔

ظاہر ہے میری ذہنی حالت پر شک کیا جائے گا کہ بھلی چنگی غزل کا بیڑہ غرق کر دیا لیکن عرشی صاحب کے اس نسخہ میں جو مرزا کے لکھے اشعار کو دیکھ کر چھاپا گیا تھا، اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ ویسے بھی ” ہوتے تک“ پر ذرا غور کریں گے تو معانی و مفہوم کے بہت سے دریچے کھل جائیں گے۔ ” ہوتے تک“ میں محبوب کا دانستہ تجاہل، غفلت اور لا پروائی ہے جبکہ ” ہونے تک“ میں محبوب ان تمام احساسات سے بری الزمہ ہو جاتا ہے۔ ” خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک“، ” دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک“، اب ذرا ان مصرعوں کا مزا لیجیے۔

ایک اور بڑی غلطی جو گلزار صاحب سے تو شاید سرزد نہیں ہوئی لیکن چھپے ہوئے تمام دواوین میں موجود ہے وہ مرزا غالب کے اس مشہور شعر سے متعلق ہے کہ، ” جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی/ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“۔ اب مصرعہ ثانی غلط ہے۔ اصل مصرعہ کچھ یوں ہے، ” حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ یعنی ” حق تو یہ ہے ” غلط جب کہ ” حق تو یوں ہے“ درست ہے۔ اگلے بلاگ میں مزید پگڑیاں اچھالنے کی کوشش کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).