کیا مشرق کا خاندانی نظام مکمل ناکام ہو چکا ہے؟


ہم میں سے بہت سے لوگ آپ کو مل جائے گئے جو طلوعِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب مغربی تہذیب وتمدن اور خاندانی نظام کی تعریف کرتے دکھائی دے گئے_ کچھ ایسے بھی ہیں جو بالکل ہی مغرب کے نظام کے سسٹم کے خلاف ہونگے_ مگر یہاں یہ سوال ہے کہ بالآخر ایسا کیوں ہوا کہ ہم نے مغربی خاندانی نظام کی حمایت کی جبکہ مشرق میں خاندانی نظام کی مخالفت آئیں اس بات کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں!

مشرق جن میں پاکستان اور بھارت بالخصوص شامل ہیں ان کے خاندانی نظام بالکل ہی وقت کی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ ہمارے ہاں خاندانی نظام کا مطلب غلامی بن چکا ہے_گھر میں کمانے والا ہی گھر کا سربراہ ہے وہ پورا کماتا ہے اس لئے وہ باقی سب پر اس بات کی وجہ سے برتری حاصل کرتا ہے کہ وہی تو ہے جس کی وجہ سے خاندان کا نان ونفقہ چل رہا ہے_ اس کی ہر بات دوسروں کے لیے حکم ہوتی ہے اور یہ ہے بھی بالکل بجا کیونکہ اس دور میں اگر گھر کی ذمہ داریاں صرف ایک شخص اٹھا رہا ہے (جو کہ بظاہر مکمن نہیں) تو اس کا حق بنتا ہے کہ وہ سب پر راج کرے_ اس لئے وہ گھر میں داخل ہوتے ہی بچوں کو ڈانٹتا ہے_ کبھی کبھار ہلکی پھلکی مار پیٹ بھی کرتا ہے_ جس سے اس کے دن بھر کی تھکن دور ہو سکے اس طرح وہ اچھا محسوس کرنے لگتا ہے_ اس کے برعکس گھر کے افراد اس سے محبت کی بجائے نفرت کے جذبات پال لیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ظلم ہے_ آہستہ آہستہ وہ اس ظلم کو قبول کر لیتے ہیں_ جو قبول نہیں کرتا وہ دماغی مریض بن جاتا ہے_ بچوں کی تربیت میں آمریت کے لیے محبت پیدا کر دی جاتی ہے_ وہ مار پیٹ کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کو مار کھانے میں مزہ محسوس ہوتا ہے_ بالکل اسی شخص کی طرح جو اپنی بیوی سے روز دو جوتے کھا کر سونے کا عادی تھا_ بیوی کے میکے جانے پر اسے ہرگز نیند نہیں آتی تھی_بیوی میکے گئی تو وہ بے چین ہو گیا اور اس کا حل اسے یہی ملا کہ وہ کسی سے دو جوتے کھائے_ اس نے اپنے پڑوسیوں سے جھگڑا کیا_ جوتے سے مار پیٹ ہوئی تو وہ آرام سے سو گیا_ یہ آمریت سےمحبت کی عمدہ مثال ہے_
ہمارے ہاں خاندانی نظام میں بزرگوں کی کیا اوقات رہ گئی ہے یہ جان کر بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے_ ہمارے ہاں ایک بزرگ کو ایک بیٹے سے دوسرے بیٹے کے گھر ہر ہفتہ ہجرت کرنی پڑتی ہے اور یہ ہجرت صرف اور صرف ایک روٹی کی خاطر ہوتی ہے_ یہ ہجرت اس خاطر نہیں ہوتی کہ دوسرا بیٹا محبت سے پیش آئے گا_ اسلام نے بزرگوں کو الگ احترام دیا ہے اور یہ اسلام کے برعکس ہے_خیر ابھی میرا موضوع اسلام کا خاندانی نظام نہیں- اس پر بعد میں لکھوں گا! ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ عمر رسیدہ شخص با آخر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے_ بزرگ کے ساتھ یہ سلوک اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ ہم سب جانتے ہیں_ چونکہ خاندان کی ذمہ داری صرف ایک شخص کے کندھوں پر ہوتی ہے اسلئے وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ اپنے والدین کو پالے یا اپنی اولاد کو؟
یورپ(مغرب) میں خاندانی نظام بالکل نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہاں بچوں کو چائلڈ ہاؤس میں رکھا جاتا ہے اور وہ مکمل آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق دار ہوتے ہیں_ ان پر کوئی گھر سے حکمران نہیں بیٹھا ہوتا جو انہیں سلیقہ سکھائے_ آداب سکھائے_ 18 سال کی عمر کے بعد وہ اپنے ہر عمل کے خود جواب دہ ہوتے ہیں_ بچوں کو مارنے پٹنے کا تصور نہیں بلکہ ایسا کرنے پر سزا ہو سکتی ہے._ بظاہر یہ اچھا ہے کیونکہ وہاں بچےکو آزادی حاصل ہے مگر اس کا بھی ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ بچہ اپنے خاندان سے بالکل الگ ہو کر رہ جاتا ہے_
بڑھاپے میں لوگ ٹوکریں نہیں کھاتے بلکہ وہ اولڈ ہاؤس میں رہ کر اپنی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں _وہ خوش رہتے ہیں یا نہیں یہ الگ سوال ہیں_ مگر وہ مطمن ضرور رہتے ہیں کہ کوئی بیٹا ان کو دھکے نہیں دے گا_ ان کو کھانا کھانے کے لیے ہجرت درکار نہ ہو گئی_ اس طرح وہ مطمن ہو کر مرتے بھی ہیں _ یورپ کے خاندانی نظام کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں سب اپنا خرچ خود برداشت کرتے ہیں اور وہ. مطمن زندگی گزارتے ہیں_ مگر یورپ اور مغرب کے خاندانی نظام سے متاثر لوگ آج بھی اس بات پر حیران ہوں گئے کہ وہاں والدین کی عزت کی خاطر صرف ایک دن ہی مختص کیا گیا ہے_ وہاں بچوں اور والدین کا تعلق بھی اچھا نہیں ہے_ یورپ میں اصل میں خاندانی نظام ہی نہیں جس کی کامیابی کے میں اور آپ تذکرے کرتے ہیں_ خاندان کا مطلب وہاں صرف میاں بیوی ہیں اور کبھی کبھار وہ بھی نہیں_ وہاں عورت اور مرد کے تعلقات مختلف ہیں سب آزاد ہیں مگر اس آزادی نے ان سے انہی کا سب کچض چھین رکھا ہے_ اسلئے وہ مشرقی خاندانی نظام قبول کرتے ہیں۔ جبکہ انہیں نہیں پتہ کہ مشرقی لوگ کس قدر مغربی خاندان کے نظام سے متاثر ہیں_


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).