یہ کیسی مدنی ریاست ہے؟


عمران خان پاکستان کو مدینہ منورہ کی طرز پر ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی فلاحی ریاست جہاں نہ کرپشن ہوگی نہ چوری، تمام شہریوں کو برابر کے حقوق ملیں گے، بیوائوں اور اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا، سادگی اپنائی جائے گی اور قرآن و سنت کی روشنی میں ملک کا انتظام سنبھالا جائے گا۔ سنننے کو تو یہ سب بہت اچھا لگتا ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

عمران خان جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا معاشی بحران ہے۔ پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لئے انہوں نے 18 ممبران پر مبنی ایک اقتصادی مشاورتی کمیٹی قائم کی جو کہ اپنی مثال آپ تھی۔ اب بجائے اس کے کہ اس کمیٹی کے ممبران کی قابلیت پر بات ہوتی، موضوعِ بحث کمیٹی کے ایک ممبر عاطف میاں کا عقیدہ بن گیا۔

عاطف میاں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ایسی کمیونٹی جس کا ہر سطح پر استحصال کرنا، حتیٰ کہ قتل تک کرنا صالحین اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہی صالحین جنہوں نے داڑھی رکھنے، لمبی چوڑی بے مقصد بحث و مباحثہ کرنے، شادی کر کے امتِ مسلمہ میں اضافہ کرنے کے علاوہ زندگی میں شائد ہی کچھ کیا ہو۔

اقتصادی مشاورتی کمیتی کے ممبران کی فہرست جاری ہونے کے بعد ان صالحین نے عاطف میاں کے عقیدے کی بنیاد پر انہیں اس کمیٹی سے ہٹانے کا اصرار شروع کر دیا اور ان کے اس دبائو میں آ کر وفاقی حکومت نے عاطف میاں کو اس کمیٹی سے الگ کر دیا۔

لیکن کیا صرف عقیدے کی بنیاد پر انہیں اس کمیٹی سے الگ کرنا درست تھا؟

عاطف میاں پاکستان نژاد امریکی ماہر اقتصادیات ہیں۔ 2014 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے انہیں دنیا کے پچیس بہترین نوجوان ماہرین اقتصادیات میں سے ایک قرار دیا تھا۔ یہ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی ساتویں بہترین یونیورسٹی مانی جاتی ہے۔ اس یونیورسٹی نے عاطف میاں کو نوکری دیتے ہوئے ان کی قابلیت دیکھی، عقیدہ نہیں۔ شائد اسی لیے آج امریکہ سوپر پاور ہے اور ہم اس دنیا میں اپنے ملک کی شناخت برقرار رکھنے کے لیے امریکی امداد پر منحصر ہیں۔

ملک و قوم کی ترقی کا یہ سبق ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں بھی سکھایا تھا لیکن ہم ایسے اچھے سبق فوری بھول جاتے ہیں۔ ذرا غزوہ بدر یاد کریں۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ بہت سے کفار جنگی قیدی بنے۔ ان میں سے جو مالدار تھے، وہ فدیہ دے کر رہا ہوئے۔ کچھ غریب قیدیوں کا فدیہ ان کے ساتھیوں نے ادا کیا۔

اب صرف ایسے قیدی بچ گئے جو نہ خود فدیہ ادا کر سکتے تھے اور نہ ان کا کوئی ساتھی ان کا فدیہ ادا کر رہا تھا۔ ایسے تمام قیدیوں کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ یہی کا فدیہ تھا اور اسی کے عوض انہیں رہائی دی گئی۔

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اُن مسلمان بچوں نے ایسے لوگوں سے لکھنا پڑھنا سیکھا جو حضرت محمدﷺ کو سرے سے نبی ہی نہیں مانتے تھے لیکن ہمارے نبی ﷺ نے ان کا عقیدہ نہیں دیکھا۔ انہوں نے ایک ایسا فیصلہ لیا جس سے مسلمانوں کو بھی فائدہ ہوا اور ان قیدیوں کو بھی فائدہ ہوا۔

کیا ہمیں ان کا یہ سبق یاد ہے؟ نہیں۔ ہم آج ختمِ نبوت کی بات کرتے ہیں لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ ختمِ نبوت کیا ہے اور یہ جس نبیﷺ سے متعلق ہے کیا ہم انہیں بھی جانتے ہیں؟ اگر جانتے ہوتے تو آج عاطف میاں کو محض ان کے عقیدے کی بناء پر اس کمیٹی سے نہ ہٹواتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).