ہمیں پھوپھو نہیں بننا تھا



دبئی شیشے کا گھر ہے۔ شیشہ بھی وہ والا جس سے باہر کا منظر ہمیشہ ٹھنڈا اور پرسکون دکھائی دیتا ہے۔ گھر سے باہر بھلے کتنے ہی ریت کے جھکڑ چل رہے ہوں گھر کے اندر یہی محسوس ہوتا ہے کہ باہر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ کچھ ہی دیر میں مینہ چھم چھم برسے گا۔ لیکن اصل میں ایسا ہوتا نہیں۔ وہاں کا راستہ تو بارش کے بادل جانتے ہی نہیں۔ صحرا میں محض گرد ہوتی ہے۔ برکھا کا ایسی خشک سالی سے کیا لینا دینا۔ ہماری زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔

شیشے کے گھر سے سب ستھرا دکھتا تھا۔ جس علاقے میں ہم رہتے تھے وہاں کبھی کسی عمر رسیدہ شخص کا گزر نہیں دیکھا تھا۔ ہاں، عقب میں ایک سربیا والے صاحب کچھ عرصے کے لئے آئے تھے۔ پھر کہاں گئے۔ واللہ اعلم۔ سب کے کپڑے اجلے ہوتے تھے۔ سب کے پیٹ کسے ہوئے تھے۔ ہر کوئی صبح کے وقت سڑکوں پر جاگنگ کرتا دکھائی دیتا تھا۔ سب عورتوں کے میاں ان کا دم بھرتے تھے۔ سب بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ کوئی بچہ روتا یا بدتمیزی نہیں کرتا تھا۔ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ وہاں کسی کو موت کا علم بھی نہیں تھا۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ ان دمکتے چہروں کی بتی ایک دن گل بھی ہونی ہے۔

پاکستان لوٹے۔ شروع کے تین مہینے بہت کٹھن تھے۔ یوں لگتا تھا کہ کسی نے توپ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں۔ خدا کا شکر ہے کہ نوکری ڈھونڈنے میں مسئلہ نہیں ہوا۔ کام پر لگ گئے۔ اتنے عرصے بعد پھر سے کمانا شروع کیا تو زندگی اور لوگوں کی بہت سی حقیقتیں کھل کر سامنے آئیں۔ مخالفت کا سامنا تو تھا لیکن یہ بات بھی اٹل تھی کہ اس کے سوا کوئی اور گزارا نہیں ہے۔ یہ بات پلے بندھ گئی کہ بھلائی صرف محنت اور اپنی کمائی میں ہے۔

اتوار کا دن تھا۔ نو بجے کے قریب والدہ کا پیغام آیا کہ ہمارے جواں سال پھوپھا کی طبیعت ایک دم سے بگڑ گئی ہے۔ اسپتال لے کر جایا گیا اور آدھے ہی گھنٹے میں وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ پھپھو اکلوتی بہن تھیں۔ یک دم پہاڑ سی زندگی ان کے سامنے منہ پھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔ ہمارے والد صاحب کی بھی جو حالت تھی وہ دیکھی نہ جاتی تھی۔ یہ شیشے کا گھر تھوڑی تھا۔ موت جیسی حقیقت زناٹے سے ہمارے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ پھپھو کو ایک طرف میاں کو کھونے کا صدمہ تھا تو دوسری طرف یہ فکر تھی کہ زندگی کا کاروبار اب کیسے چلے گا۔

گاؤں کی موت اور شادی دونوں بہت بھرپور ہوتی ہیں۔ آہ و بکا کا ایک طوفان تھا۔ یک دم جوان موت تھی۔ سامنے میت پڑی تھی۔ وہی شخص جو سر کا سائیں تھا اب میت بن چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں مٹی ہونے والا تھا۔ پھوپھو بے حال ہو کر ہمارے گلے لگیں اور بولیں
”میں تاں وس کے اجڑ گئی ( میں تو بس کر اجڑ گئی)“

ان کو دلاسہ دیتے ہوئے ہمارے دل کی حالت بھی اتھل پتھل تھی۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو گیا اور کیوں ہو گیا۔ ہم تو موت کو بھول ہی چکے تھے۔ ہمیں تو یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پھوپھو کی بے سرو سامانی اور جوان بیوگی کا خیال کچوکے لگا رہا تھا۔ اپنے بوڑھے باپ کی حالت کی علیحدہ فکر تھی۔ ان کے شیشے کے گھر کی دیواریں چکنا چور ہو چکی تھیں۔

کاش کہ ہم ان کو یہ تسلی دے سکتے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مرنے والے کا غم وقت کے ساتھ کم ہو جائے گا۔ آپ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہیں۔ بچوں کا کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ آخری الفاظ ہمارے حلق میں پھنس چکے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ وہ عورتیں جن کو ساری عمر یہی درس دیا گیا ہو کہ مرد کے ہوتے ہوئے کمانا یا باہر کا کوئی کام کرنا اچھی عورتوں کا شیوہ نہیں۔

مرد نہ ہو تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ عورت کا سہاگ اجڑ جائے تو اس کی عورت دھول سے زیادہ نہیں۔ اب جس کا جی چاہے اسے پیروں میں روندے۔ ہر کسی کی طرف پیسوں اور مدد کے لئے دیکھے۔ میاں کے مرنے پر ان کی زندگی واقعی ختم ہو جاتی ہے۔ میری تیری طرف دیکھنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ عورت کی اپنی کمائی اور عملی زندگی کے دھارے میں شمولیت کتنی اہم ہے اس کا احساس ہمارے دل میں مزید اجاگر ہو گیا۔

گاؤں سے اسی دن شہر لوٹے۔ دل جیسا بھی تھا اگلے دن نوکری پر گئے کہ اب اس کی مزید قدر آ چکی تھی۔ شیشے کے گھر کا رہا سہا سحر بھی ٹوٹ چکا تھا۔ ریت کے جھکڑ چل رہے تھے۔ آنکھیں ملتے تھے تو سب مزید صاف دکھنے لگتا تھا۔ برکھا کی امید ختم ہو چکی تھی کہ صحرا میں مینہ کا کیا کام لہذا اس کی امید بھی عبث۔
ہمیں پھوپھو نہیں بننا تھا۔ بس کر نہیں اجڑنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).