بچوں کے لئے جنسی تعلیم وقت کی اہم ضرورت


\"intesabوقت بدل رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ روایات اور اقدار بھی بدل رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ بچے بڑے سب ہی انٹرنیٹ، موبائل فون، اسمارٹ فون اور نت نئی ڈیوائس استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ وقت تو بدل گیا لیکن نہیں بدلا تو بچوں کی پرورش کرنے کا انداز نہیں بدلا۔ وہ آج بھی اسی انداز سے چل رہا ہے جس طرح برسہا برس پہلے چل رہا تھا۔ اب اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے بچے ادب اور لحاظ کر لیا کرتے تھے اب اس سے بھی گئے۔ بہر حال ہر وقت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جو اس دور کے لوگوں کو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اب جس نہج پر دنیا چل پڑی ہے اس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کے انداز میں بھی تبدیلی لائیں۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ بچوں پر رعب جما کر انہیں قائل کر لیا جائے۔ بچے ہر بات کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ان میں تجسس بڑھ گیا ہے۔ اگر انہیں کوئی بات جاننی ہو تو وہ خود انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے بیٹھ جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر تقریباً ہر موضوع پر بے تحاشہ ویب سائٹس اور معلومات کا ڈھیر ہے جن کے بارے میں تحقیق کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ معلومات صحیح ہیں یا نہیں۔

ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے تو پیش آتے ہیں لیکن زیادہ تر والدین کا رویہ دوستانہ نہیں ہوتا۔ والدین اپنے بچوں کی ساری خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں وقت بھی دیتے ہیں تاہم ان کے ساتھ وہ تعلق قائم نہیں کر پاتے جس سے بچے بلا جھجک اپنے دل کی ہر بات اپنے والدین سے کہہ سکیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری وہ سوچ ہے جو بچوں کی پرورش کی راہ میں حائل ہے۔ آج کل بہت ضروری ہو گیا ہے کہ اپنے بچوں کو دیگر تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری جنسی تعلیم بھی دی جائے۔ اور سب سے پہلے یہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیں۔

زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں جنسی تعلیم صحت اور سائنس کے نام پر اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کی اقدار دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ابھی ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا اس لئے بہتر ہے کہ یہ تعلیم بچوں کو والدین خود ہی دیں۔ کئی ممالک میں جنسی تعلیم چھٹی اور ساتویں جماعت کے بچوں کو دی جاتی ہے اور اس میں بچوں کو وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نشو نما اور جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ذہنی پریشانی کا شکار نہ ہوں اور کسی غلط ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی بجائے انہیں صحیح معلومات ایک دائرے میں رہتے ہوئے فراہم کی جاسکیں۔ تاکہ انہیں ان کے سوالوں کے جواب بھی مل جائیں اور ان کی معصومیت کو کسی قسم کا نقصان بھی نہ پہنچے۔ تجسس اور جاننے کا شوق بچوں کو ایسے موضوعات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے جس کے جواب ڈھونڈنے کے لئے وہ ایسے لوگوں کا رخ کرتے ہیں جن پر وہ اعتماد کرتے ہوں اور اس سے قبل کے وہ اپنے اردگرد کسی کو قابل اعتبار تصور کر کے اس سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں اگر انہیں ان تمام سوالوں کے جواب اپنے والدین سے ملیں تو ان کے لئے بہتر ہوسکتا ہے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ٹین ایجرز بچے اپنی جسمانی نشو نما اور تبدیلیوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں ایسے وقت میں والدین کو اپنے بچوں کو مکمل اعتماد میں لے کر انہیں ان تبدیلیوں سے کچھ وقت قبل آگاہ کر دینا چاہئیے تاکہ بچے کسی ڈپریشن کا شکار نہ ہوں۔ والدین کے لئے ضروری ہے کہ بچوں سے ایسے موضوعات پر بات کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بچے کے سوالات پوچھنے پر کسی ناراضی کا اظہار نہ کریں۔ ماؤں کو بیٹیوں کے ساتھ اور باپ کو بیٹوں کے ساتھ جس حد تک ممکن ہو دوستانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ جو بچے چھٹی یا ساتویں جماعتوں میں نہیں ہیں ابھی عمر میں چھوٹے ہیں انہیں ان کے حساب سے معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جنسی نوعیت کے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور بچے درسگاہوں میں یا گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے انہیں اس بات کی تعلیم دی جائے کہ اگر ان کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ کیا غلط ہو رہا ہے اور انہیں ایسے کسی بھی واقعے میں کیا اقدامات کرنے چاہیں۔ انہیں کسی کے ساتھ کہیں نہیں جانا ہے۔ وہ جو بات بھی پوچھنا چاہتے ہیں اپنے ماں باپ سے پوچھیں۔ اور اگر کوئی ان کے ساتھ کسی قسم کا برا سلوک کرتا ہے تو کسی سے ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی بجائے وہ سب سے پہلے اپنے والدین کو آگاہ کریں۔

اس ضمن میں والدین پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو کسی بھی رشتہ دار یا والدین کے دوستوں سے زیادہ بے تکلف ہونے کی اجازت نہ دیں۔ اپنی عمر سے بڑے بچوں کے ساتھ دوستی رکھنے پر سرزنش کریں۔ اس کے علاوہ ان کے ہم عمر دوستوں کے بارے میں بھی دوستانہ انداز میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ والدین کو یہ پتہ ہو کہ ان کا بچہ کس طرح کے دوستوں میں وقت گزارتا ہے۔ بچے عام طور پر مختلف موضوعات پر سوالات کرتے ہیں جن میں کئی سوالات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ممنوع تصور کئے جاتے ہیں جس پر ہمارا معاشرتی رویہ یہی ہے کہ بچوں کو کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا جاتا ہے یا پھر ڈانٹ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ بچوں سے شرم اور لحاظ کی وجہ سے جھوٹ بولنے اور ٹالنے کی بجائے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق ان کی صحیح رہنمائی کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ کسی غلط ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی بجائے اپنے سب سے محفوظ ذرائع پر اعتبار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments