جب مسئلہ کشمیر چو این لائی کے دورے کا شکار ہوا


چند دن پہلے عرض کیا تھا کہ صدر جے ایف کینیڈی مسئلہ کشمیر کے حل کا پر جوش حامی تھا۔ لیکن انہوں نے جو “سٹیٹس کو” کی بات کی مسئلہ کشمیر عملی طور پر اس کا شکار ہو گیا۔  اور آج تک اس کا شکار ہے۔ کینیڈی کی موت کے فورا بعد امریکی حکام کے لیے پاکستان چین تعلقات کا آغاز بہت بڑی دلچسپی اور تشویش کا باعث بن گیا۔  یہ مسئلہ امریکہ کے لیے ایک چیلنج بن گیا، جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر سمیت باقی تمام  اہم مسائل پس منظر میں چلے گئے۔  جب ذوالفقار علی بھٹو جے ایف کینیڈی کی آخری رسومات کے لیے واشنگٹن پہنچے تو نئے امریکی صدر لنڈن جانسن نے پاکستان  اورچین کے نئے تعلقات کے معاملے میں اپنی بے صبری اور ناراضی چھپانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ انہوں نے جنازے پر ہی ذوالفقار علی بھٹو سے اس مسئلے پر سوال اٹھا دیا۔   نوبت کچھ اس  تک پہنچی کے انیس تریسٹھ کے اس موسم خزاں میں ذوالفقار علی بھٹو لینڈن جانسن سے ملاقات کرنے کے لیے واشنگٹن میں لمبا انتظار کرتے رہے۔

بھٹو کو امریکی حکام کی طرف سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ ایوب خان نے چواین لائی کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دے کر امریکہ کو سخت مایوس کیا ہے۔ لینڈن جانسن کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی ابتدائی سفارت کاری کا پورا احوال ایک ٹیلی گرام میں قلمبند ہے۔ یہ ٹیلی گرام دو دسمبر انیس سو تریسٹھ کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے واشنگٹن سے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کو ارسال کی تھی۔ اس ٹیلی گرام میں صدر لنڈن جانسن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا گیا۔ اس میٹنگ میں انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ مسٹر بال، پاکستانی سفیر احمد اورفلپ ٹالبوٹ موجود تھے۔ میٹنگ کا اہتمام اس لیے کیا گیا ہے کہ بھٹو نے کہا کہ ان کے پاس صدر ایوب کا صدر لنڈن جانسن کے لیے ایک اہم ترین پیغام ہے ، اور وہ یہ پیغام صدر جانسن تک پہچانے کے لیے جتنا بھی انتظار کرنا پڑے کریں گے تاکہ وہ صدر کو مل کر بذات خود یہ پیغام دے سکیں۔ میٹنگ میں بھٹو نے ایوب خان کا تحریری پیغام دیا اور اس کی اپنے الفاظ میں وضاحت بھی کی، اور کہا کہ ملاقات کا مقصد پورا ہو گیا ہے، اور وہ اس کے علاوہ اس میٹنگ میں دیگر اہم موضوعات پر گفتگو کرنے کی توقع نہیں رکھتے۔ مگر چین پاکستان تعلقات کو لیکر لنڈن جانسن کا غصہ برقرار تھا۔ انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام اور امریکی کانگرس کے رہنما جانتے ہیں کہ پاکستان کمیونزم کے خلاف مضبوطی سے ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ کمیونسٹ چین کا لیڈر پاکستان کے سرکاری دورے پر آ رہا ہے۔  اس صورت حال میں وہ بھٹو کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان کمیونسٹ چین کے ساتھ اپنا تعلق بنائے گا، تو یہ امریکہ کے لیے ایک سنجیدہ پبلک ریلشن کا مسئلہ بن جائے گا۔

صدر نے کہا کہ وہ ” پرو پاکستان ” یا “پرو انڈیا”  نہیں  ہیں، بلکہ وہ  آزاد دنیا کے ساتھ ہیں، اور چین کی طرف سے پاکستان کا اس طرح کا سرکاری دورہ آزاد دنیا کے لیے مشکلات پیدا کر دے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ وہ یہ بات سمجھتے ہیں، مگر وہ صدر پر واضح کرنے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایک پبلک رائے ہے۔  وہ یہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ پاکستانی عوام بھارت کے خلاف کتنے سخت جذبات رکھتے ہیں۔ انڈیا ہم سے بڑا اور مضبوط ہے۔ ہم انڈیا کی دشمنی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس پر صدر نے جواب دیا کہ پاکستان کے لوگ جانتے ہیں کہ ہم انڈیا کو پاکستان پر حملہ نہیں کرنے دیں گے۔ صدر ایوب یہ بات جانتے ہیں۔ پاکستان کو ہم نے یقین دلایا ہے کہ ہم اپنے وعدے پر قائم رہیں گے۔ اور ہم یہ بات بھی یقینی بنائیں گے کہ ہماری کسی بات سے پاکستان کو نقصان نہ پہنچے۔ بھٹو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہونے کے ناتے  چین جیسی نظریاتی کمیونسٹ ریاستوں کی طاقت سمجھتا ہے۔ خطرات موجود ہیں، مگر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان پر اعتبار کیا جانا چاہیے۔ امریکی اقدامات جو بھارت کی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں،  وہ پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ ایوب خان میں اس رجحان کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت  ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن چین کے بھارت پر حملے کے بعد ہر چیز پاکستان کے اس موقف کی تائید کرتی ہے کہ چین کی نظر جنوب مشرقی ایشیا پر ہے ناکہ بھارت پر۔

اس پر صدر نے کہا اس کے باوجود آپ جینی کمیونسٹوں کی دعوت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا چاہتے ہیں ؟  صدر نے مذید کہا کہ امریکی کانگرس میں جو مضبوط ترین لوگ  پاکستان کے حامی ہیں، وہی لوگ چینی کمیونسٹوں کے بھی مضبوط ترین مخالف ہیں۔ جب یہ لوگ چینی لیڈر کے سرکاری دورہ پاکستان کے بارے میں جانیں گے تو ان سے اس کی سخت مخالفت کی توقع رکھی جانی چاہیے۔ شام کو جب تالبوٹ ذوالفقار علی بھٹو کو ایرپورٹ پر الوداع کہنے آئے تو ذوالفقار علی بھٹو اس بات پر پریشان تھے کہ صدر کے ساتھ چینی دورے کا معاملہ اس طرح زیر بحث نہیں آنا چاہے تھا۔ بھٹو نہیں چاہتے تھے کہ چو این لائی کے دورے کا مسئلہ زیر بحث آئے۔ اس لیے انہوں نے ایوب خان کا پیغام دیتے ہی، دیگر موضوعات پر بات  نہ کرنے کی توقع  ظاہر کی تھی۔ لیکن امریکی صدر کے لیے یہ اس وقت کا اہم ترین ایشو تھا۔  تالبوٹ نے وضاحت کرتے ہوئے بھٹو کو بتایا کہ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ روس اور چین اپنا دائرہ اثر برصغیر تک پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اور ہمیں پاکستان جیسے دوست کو چین کی اس ایجنڈے کا حصہ بنتے ہوئے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ جہان تک پاکستان کے بھارت بارے خدشات کا تعلق ہے تو ہم پاکستان کو بار بار یقین دلا چکے ہیں کہ ہم انڈیا کو پاکستان پر حملہ  نہیں کرنے دیں گے۔ ہم پاکستان کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لیکن جب بد قسمتی سے پاکستان چین کے ساتھ ملےگا تو اس سے داخلی سطح پر ہمارے ہاتھ باندھ  دیے جائیں گے، اور اس سے ہمارا وہ اثر و رسوخ بھی ختم ہو جائے گا، جو ہم پاکستان کے حق میں اور انڈیا کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ یعنی امریکی کانگرس اور عوام ہمیں اجازت نہیں دیں گے کہ اگر پاکستان چین کے ساتھ تعلقات بڑھائے تو ہم اس کے باوجود بھارت کے مقابلے میں اس کی حمایت کریں۔

پاکستان پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ چو این لائی کے دورے کو بہت سنجیدہ لے رہا ہے، اور اس مسئلے کو لیکر پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر امریکی حمایت و تعاون سے محروم ہو سکتا ہے۔ لیکن باسٹھ کی چین بھارت جنگ کے دوران امریکہ کے بھارت کی طرف جھکاو کو دیکھتے ہوئے پاکستان بھارت کے مقابلے میں چین کی حمایت حاصل کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکا تھا، کیوں کہ پاکستانی پالیسی سازوں پر یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ امریکہ کبھی بھی بھارت کے ساتھ تصادم کی صورت میں ان کی مدد نہیں کرے گا۔ عالمی سفارت کاری میں یہ پاکستان کا سب سے بڑا فیصلہ تھا، جس کا سب سے بڑا اثر مسئلہ کشمیر پر پڑا۔ پاکستان نے “ڈیمیج کنٹرول” کی کوشش میں مسئلہ کشمیر سیکورٹی کونسل میں اٹھا دیا۔ امریکہ کے لیے یہ حیرت کا  شدید جھٹکا تھا، کیوں کہ ایسا  خلاف معمول اس کے مشورے کے بغیر کیا گیا تھا۔ یوں حالات ایک نیا رخ اختیار کر گئے، جن کا تزکرہ پھر کبھی کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments