چکوال میں طبی سہولیات کا فقدان


دارلاحکومت اسلام آباد سے 90 کلومیٹر کی مسافت پر پاکستان کا شہر چکوال واقع ہے۔ چکوال کی اہمیت تاریخی اعتبار سے بھی ہے کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں جنگ آزادی کے دور میں انگریز فوج کی جنگی سامان کی ترسیل میں مقامی لوگوں نے مدد کی۔ انعام کے طور پر یہاں لوگوں کو زمینیں تحفے میں دی گئیں۔ پنجاب۔ پوٹھوہار ریجن میں موجود اس علاقے میں پاکستان کی وہ آبادی مقیم ہے جس کے گھر کا ہر فرد فوج میں ہے۔ ہر گھر میں شہید اور غازی اپنے ملک کی دفاع کا عزم لئے موجود اس علاقے کی کئی اور خدمات بھی ہیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کا تعلق بھی چکوال سے ہے۔ جبکہ ملکی شخصیات میں سابق صدر یحیی خان سمیت ایئر مارشل نور خان اور پاکستانی آرمی کے پہلے کمانڈر ان چیف مقرر کیے جانے والے افتخار خان کا تعلق بھی اسی زرخیز زمین سے ہے۔ افتخار خان جنرل گریسی سے چارج لینے سے پہلے ہی ایک ائیر کریش میں شہید ہو گئے تھے۔

پانچ ڈسٹرکٹ پر تقسیم چکوال کے قریب ہی کٹاس کے مندر بھی موجود ہیں۔ جو تاریخی ورثہ ہیں۔ لیکن اس شہر کی اتنی اہمیت کے باوجود یہاں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ یا تو بہتر علاج کی سہولیات کے لئے اسلام آباد جاتے ہیں یا پھر پرائیویٹ ڈاکٹروں کی جیب گرم کرتے ہیں۔

چکوال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا گزشتہ کئی برس سے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہسپتال میں طبی عملہ صبح 9 بجے سے صرف 1 بجے تک ہی موجود رہتا ہے۔ ان میں بھی زیادہ وہ عملہ ہے جو پیرا میڈیکل اسٹاف کہلاتا ہے۔ مریضوں سے برا سلوک ایک عام سی بات ہے۔ ہسپتال کا یہ حال ہے کہ ایمرجنسی میں بھی عملہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسی ہسپتال کی ایمرجنسی کا افتتاح پنجاب کے سابق وزیر اعلی شہباز شریف نے کیا تھا۔ لیکن اب ہسپتال کی ایمرجنسی میں بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔ حادثات سمیت کئی کیسز کے لئے فرسٹ ایڈ میں استعمال کی جانیوالی ادویات سے ہسپتال کئی ماہ سے محروم ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بنیادی طبی سہولیات کا موجود نہ ہونا ایک جانب۔ اس ہسپتال میں نہ ہی کوئی مرض تشخیص کرنیوالی لیبارٹری موجود ہے اور نہ ہی خون ٹیسٹ نمونوں کی مشین۔ ہسپتال میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال ہے۔

جا بجا کچرے کے ڈھیر یہاں آنیوالے مریضوں کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ہسپتال ملازمین خود بھی مریض کو اسلام آباد یا کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کو دکھانے پر زور دیتے ہیں۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ مریضوں اور ان کے لواحقین کے مطابق ہسپتال کا عملہ زور تو اسلام آباد اور راولپنڈی لے جانے پر دیتے ہیں لیکن ایمبولینس سروس تک نہیں دیتے اور نہ ہی فرسٹ ایڈ دیتے ہیں۔ مریض ہسپتال عملے کے رویوں سے بھی نالاں ہیں۔

دوسری جانب پرائیویٹ کلینک اور ڈاکٹروں کی بہتات ہے۔ لیکن ڈاکٹر ہر بار مریض دیکھنے کے ہزاروں روپے چارج کرتے ہیں۔ یہ پیسے ادویات کے علاوہ ہوتے ہیں جو جیب پر بھاری خرچ ہے۔ میری گزارش ہے کہ جس تبدیلی کا نعرہ موجودہ حکومت نے لگایا ہے۔ اب اسے عمل میں لایا جائے۔ پنجاب کے وزیر صحت سمیت متعلقہ اداروں کے افسروں کو پابند بنایا جائے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات پہنچائی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).