زیارت یاترا


بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے، جہاں طویل ساحل بھی ہے، تو بے آب و گیا صحرا بھی؛ جہاں خشک اور سنگ لاخ پہاڑ بھی ہیں، تو صنوبر کے جنگلات سے ملبوس سر سبز پہاڑ بھی۔ اسی طرح یہاں سبی جیسا گرم ترین علاقہ بھی ہے، تو زیارت جیسا صحت افزا مقام بھی۔

زیارت ایک پر فضا مقام تو ہے ہی، لیکن اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے آخری ایام گزارے؛ اس قیام گاہ پہ جسے آج جسے قائداعظم ریزیڈنسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں بابائے قوم اکثر موسم گرما میں قیام پذیر ہوتے تھے اور خاص طور پر جب قیام پاکستان کے فورا بعد ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو معالج کے مشورے کے مطابق یہیں پر رہنے لگے اور اپنی وفات سے ایک دو روز قبل ہی یہاں سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے لیکن جان بر نہ ہو سکے۔ یاد رہے کہ اس تاریخی ورثے کو 2013 میں شدت پسندوں نے حملہ کر کے تباہ کر دیا تھا۔ بعد ازاں اسے از سر نو تعمیر کر کے 14 اگست 2014 کو اصل حالت میں بحال کر دیا گیا تھا۔

بات ہو رہی تھی زیارت کی، تو یہ جنت نظیر مقام بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ سے تقریبا 75 کلومیٹر دور واقع ہے۔ زیارت کوئٹہ سے سوا دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ کوئٹہ سے زیارت جانے کے لیے بلیلی سے ہوتے ہوئے کچلاک اور پھر وہاں سے دائیں طرف مڑنے سے آپ اپنے آپ کو ایک حسین منزل کے راستے پر گام زن پائیں گے۔ پورے راستے پر بہت ہی دل کش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر پتھر کے زمانے کی غاریں، برساتی نالے، پہاڑوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پر پیچ اور تنگ گھاٹیوں سے بل کھاتے ہوئے راستے، سیب، خوبانی، آڑو، چیری اور انگور کے باغات۔ وسیع و عریض وادیاں اور ان وادیوں میں بنے کچے پکے مکانات اور پگ ڈنڈیوں پہ جاتے ہوئے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، سڑک کنارے بیٹھے پھل فروش یہ سب اور بہت کچھ آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔

راستہ بالکل آسان اور محفوظ ہے۔ زیارت شہر سے تھوڑا پہلے باب خیبر کی طرح کا ایک بنا ہوا گیٹ آپ کو زیارت آنے پر خوش آمدید کہتا ہے۔ زیارت میں سیاحوں کو درپیش مسائل میں سر فہرست کوئی اچھا سا گیسٹ ہاوس یا ہوٹل کا کمرا حاصل کرنا ہے۔ اگر آپ یہاں پہلی بار آئے ہیں تو تھوڑی سی مشکل ہو سکتی ہے لیکن فکر کی کوئی بات نہیں کیوں کہ یہاں کے لوگ بہت سادہ لوح اور سچے ہیں۔ آپ کی ہر ممکن مدد کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

زیارت میں خوش گوار موسم سے محظوظ ہونے کے علاوہ جو گھومنے پھرنے کی مقامات ہیں، ان میں زیارت ریزیڈنسی، صنوبر کے جنگلات جن میں آپ دو ہزار سال تک کی عمر والے درخت دیکھ سکتے ہیں۔ جی ہاں دو ہزار سال پرانے زندہ درخت۔ ایک ایسا صنوبر کا درخت بھی دیکھنے کو ملے گا جو اللہ کے با برکت اسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ زیارت شہر سے قریب سات کلومیٹر نیچے صنوبر کے جنگلات کے بیچوں بیچ خرواری بابا کا مزار بھی ہے، جہاں روحانیت اور صوفی ازم سے لگاو رکھنے والے فیوض و برکات کے لیے جاتے کیں اور راستے میں جنگلات کے قدرتی حسن کو اپنی یادداشت میں قید کرتے جاتے ہیں۔

ایک بات جس نے مجھے بھی بہت بے چین کیا، وہ ہے صنوبر کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی۔ یہاں کے سادہ لوح مکینوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے علاقے میں موجود قدرتی خزانے کو برباد کر رہے ہیں۔ یونیسکو نے ان جنگلات کو ایک حیاتیاتی ورثہ قرار دے دیا ہے لیکن حکومت لمبی تان کر محو خواب ہے۔

میرے وہاں ایک دن کے قیام نے مجھے زیارت اور صنوبر کے جنگلات سے محبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں سب دوستوں کو کم سے کم ایک بار جانے کی سفارش کرتا ہوں، تا کہ وہ بھی قدرت کے ان بے پناہ حسین نظاروں سے فیض یاب ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).