معیارِ تعلیم کی ضمانت کون دے گا؟


گزشتہ دنوں سندھ ہائیکورٹ نے پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے پرائیویٹ اسکولوں کو زیادہ سے زیادہ سالانہ 5 فیصد اضافہ کرنے کا پابند کیا۔

چند والدین کی طرف سے دائر کردہ اس درخواست پر فیصلے کا فائدہ یقینی طور پر ہزاروں والدین کو ہوگا۔ جن کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا فیسوں میں سالانہ 5 فیصد اضافے سے پرائیویٹ اسکول وہ معیار تعلیم برقرار رکھ سکیں گے۔ جس کے لئے والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں کی بجائے پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔

پرائیویٹ اسکول والے تو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن پرائیویٹ اسکولوں میں معیار تعلیم براقرار رکھنے کی گارنٹی کون دے گا؟ وہ محترم ججز، جنھوں نے یہ فیصلہ دیا ہے، یا پھر وہ والدین جنھوں نے سندھ ہائیکورٹ میں مذکورہ درخواست دائر کی تھی۔

والدین کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنانے سے پہلے عدالت کو چاہیے تھا کہ عدالت پرائیویٹ اسکول والوں سے ان کے خرچوں اور ٹیچرز کو دی جانے والی تنخواہوں کا تفصیلی جائزہ لیتی۔ عدالت ایک کمیٹی بناتی جو کہ دونوں سائلین کی سنتی اور دونوں فریقین کی باہم رضا مندی سے فیصلے پر پہنچتی۔ جس کا فائدہ والدین کو بھی ہوتا اور پرائیویٹ اسکول والے بھی معیار تعلیم برقرار رکھنے کی ضمانت دیتے۔

اب فیصلے بعد عدالت کو چاہیے کہ وہ حکومت کو پابند کردے کہ ایک سال میں اشیا خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔ عدالت وزارت پٹرولیم کو پابند کردے کہ چونکہ عدالت نے پرائیویٹ اسکولوں کو سالانہ 5 فیصد اضافہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ لہذا وزارت یقینی بنائے کہ ایک سال میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ 5 فیصد سے زیادہ نا ہو۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں چاہے جتنی مرضی اوپر چلی جائیں۔

سندھ ہائیکورٹ کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو پابند کریں کہ وہ تنخواہوں میں سالانہ 5 فیصد سے زیادہ کا مطالبہ نا کریں۔ اس کے باوجود کہ حکومت ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں 15 سے 20 فیصد تک اضافے کا اعلان کرتی ہے۔

سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنے والے والدین کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اس فیصلے کے بعد والدین کی ہمدردی اور واہ واہ سمیٹتے ہوئے سوچتی کہ انھوں نے سندھ ہائیکورٹ سے مطلوبہ فیصلہ تو حاصل کر لیا۔ لیکن ان کے اور ان کے لئے واہ واہ کہنے والے والدین کے بچوں کو وہی آرام دہ ماحول، جدید ٹیکنالوجی، اعلی تعلیم یافتہ ٹیچرز، غیر نصابی سرگرمیاں اور دیگر آسائشیں دستیاب ہوں گی۔ جن کی وجہ سے والدین سرکاری اسکولوں پر پرائیویٹ اسکولوں کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔

سندھ ہائیکورٹ کے ججز نے تو فیصلہ دے دیا۔ آج ججز سندھ ہائیکورٹ میں تعینات ہیں۔ کل کو ان ججز میں کوئی بعد از ترقی سپریم کورٹ چلا جائے گا اور کوئی دوبارہ سے اپنی وکالت کی پریکٹس شروع کردیگا۔ لیکن پرائیویٹ اسکولوں میں جاکر معیار تعلیم کو یقینی کون بنائے گا؟ پاکستانی عدالتی نظام کا تو سب کو پتہ ہی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے میں تبدیلی تک بچے مونٹیسوری سے جونیئر اسکول میں اور جونئیر اسکول کے بچے ہائی اسکول میں پہنچ چکے ہوں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں ہونے والے سالانہ اضافہ والدین کے لئے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اس کا حل یہ بھی نہیں کہ فیسوں میں صرف 5 فیصد اضافہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ فیسوں میں سالانہ اضافہ افراطِ زر میں ہونے والے سالانہ اضافے، بجلی، پانی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے لگاتار اضافے اور ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔

اب ہو گا کیا؟ اگر پرائیویٹ اسکول والے فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے اور اگر کرتے ہیں تو پرائیویٹ اسکول والے عدالتی فیصلے کا سارا غصّہ یا تو ٹیچرز کی تنخواہیں کم کر کے نکالیں گے۔ یا پھر پرائیویٹ اسکولوں میں فراہم کردہ آسائشوں پر سمجھوتہ کرکے۔ ہر صورت میں متاثر ہمارے بچے ہی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).