ثقافتی اداروں کے سربراہان اور صوبائی وزارت


پاکستان اس وقت جہاں اندرونی اور بیرونی طور پرسیاسی اور مذہبی سازشوں کا شکار ہے وہاں سب سے زیادہ جنگ ہمیں ثقافت کے نام پر کرنی پڑ رہی ہے۔ مغربی تہذیب ہو یا انڈین فلم انڈسٹری کا کلچر، یہ سب ہماری نسوں میں سرایت کر گیا۔ آج ہمارے پاس فلم انڈسٹری میں صرف اور صرف بے ہودہ گانے اور تھیٹر میں ہمارے پاس صرف ڈانس(مجرا) رہ گیا۔ کسی زمانے میں اسٹیج ڈرامے تفریح کا بہترین ذریعہ سمجھے جاتے تھے مگر اب ڈراموں میں سیکس، ڈانس اور واہیات مکالمہ بازی کے علاوہ کچھ رہ ہی نہیں گیا۔ ٹی وی ڈرامہ انڈسٹری پر ”ڈائجسٹ مارکہ خواتین“ ناول نگار قابض ہو گئیں۔ ناولوں پر ڈرامے اور فلمیں بننے لگیں۔ یہاں تک کہ ڈرامے کی کہانی کو فلمایا جا نے لگا ہے۔

آپ پاکستان کی پچھلے دس سالوں کی فلمیں اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو تھوڑی دیر یوں ہی لگے گا کہ آپ کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ یعنی ہمارے پاس نہ تو کوئی کہانی رہ گئی اور نہ ہی کام کا اسکرپٹ اور اسکرپٹ رائٹر۔ نہ آؤٹ ڈور، اِن ڈور شوٹنگ کے لیے کوئی بنیادی لوازمات رہ گئے۔ ثقافتی ادارے جنہیں یہ کام کرنا تھا وہ بھی سیاسی عروج و زوال کی نذر ہوتے رہے۔ جب بھی حکومتی بدلی، ان اداروں کے سربراہان اور انتظامیہ بھی بدل گئی۔ اس کا نقصان کسی نہ کسی سطح پر یا تو ارٹسٹ کو ہوا یا پھر پاکستانی تہذیب و ثقافت کو۔ حکومتیں بھی ہر دور میں ادب و ثقافت کے نام پر پیسہ خرچ کرتی رہیں۔ کبھی فنونِ لطیفہ کے نام پر اکیڈمیز بنانے کا جھانسہ دے کر پلاٹوں کی تقسیم میں خرد برد کی گئی تو کبھی کانفرنسوں کے نام پر کروڑوں روپیہ لٹایا گیا مگر اس کا ”آؤٹ پٹ“ کتنا ملا، یہ فیصلہ عوام خود کر سکتے ہیں۔

میں پچھلے دس سالوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ان کانفرنسوں اور میلوں کا حصہ بنتا آرہا ہوں، اس کی وجہ شاید میرے وہ سینئرز ہیں جنہوں نے ہمیشہ محبت اور پیار سے نوازا اور مجھے مدعو کرتے رہے۔ لہٰذا میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پچھلے کچھ عرصے میں جن اداروں نے زبان و ادب اورثقافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ان میں اردو سائنس بورڈ اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگویجز آرٹ اینڈ کلچر نمایاں ہیں۔ اردو سائنس بورڈ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی جوائننگ سے پہلے بالکل سنسان پڑا تھا، لوگوں کے ذہنوں سے اس اہم ترین ادارے کا نام تک نکل چکا تھا مگر اس ادارے خوشی قسمتی کہ اس کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر میسر آئے جنہوں نے اس مردہ ادارے میں روح پھونکی اوراسے فعال ترین بنا دیا۔

یہاں الحمرا کا ذکر نہ کرنا ادبی نا انصافی ہوگی۔ یہ بات میرے تمام ادبی دوست جانتے ہیں کہ جن دنوں عطاء ا لحق قاسمی الحمرا کے چیئرمین تھے، ادبی میلہ لگتا رہا۔ پانچ سال تواتر سے عالمی کانفرنسز ہوتی رہی اور راقم کئی کانفرنسوں میں شریک بھی ہوا۔ پھر قاسمی صاحب پی ٹی وی پہنچے تو وہاں بھی ایک ادبی دنیا آباد کر لی، ان کے توسط سے شاعروں کے لیے ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے دروازے بھی کھل گئے مگر ان کے جانے کے بعد یہ دونوں ادارے کس طرح اپنا مقام برقرار رکھ پاتے ہیں یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

اس کے علاوہ پنجاب کا انتہائی اہم ادارہ جس نے یقینا پنجابی زبان و ادب اور پنجابی ثقافت کے فروغ میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا وہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگویجز آرٹ اینڈ کلچر(پلاک)ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بطور ڈائریکٹر جنرل چارج سنبھالنے کے بعدجس انداز میں اس ادارے کو ریفائن کیا اور اس میں نت نئے کارنامے سرانجام دیے اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی۔ پنجابی ڈکشنری کی اشاعت سے لے کر پنجابی ہیروزکو اعترافِ فن ایوارڈز دینے تک کئی بڑے کام کیے۔ وہ لوگ جنہوں نے پنجابی تہذیب و ثقافت اور پنجاب زبان و ادب کے فروغ کے لیے کسی بھی طرح کی خدمات سر انجام دیں انہیں اس ادارے کے پلیٹ فارم سے منظرِ عام پر لایا گیا۔

گزشتہ دنوں نامور موسیقار مجاہد حسین کے اعزاز میں شام میں صوبائی زیر ثقافت فیاض الحسن چوہان شریک تھے، صوبائی وزیر کی موجودگی کے باعث یہ محفل موسیقی سے ”سیاسی جلسہ“بن گئی۔ صوبائی وزیر جو پہلے ہی اپنے سخت رویے کی وجہ سے میڈیا کے زیرِ عتاب تھے انہیں اس محفل میں انتہائی سخت سوالا ت کا سامنا کرنا پڑا۔ سامعین نے فیاض الحسن چوہان سے پے در ہے سوالات کیے اور موصوف مسکراتے ہوئے ان کا جواب دیتے رہے۔ انہوں نے دورانِ گفتگوکئی اعلانات بھی کیے، اگر ان بیانات پر واقعی من و عن عمل کر لیاگیا تو پنجاب میں فلم انڈسٹری اور تھیٹر میں انقلاب آ جائے گا کیونکہ ہماری نئی نسل کو الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں جس عذاب سے گزرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

کیبل نیٹ ورک اور ڈش انٹینا کے ذریعے جس تہذیب کی کہانی ہمیں سنائی جا رہی ہے اس سے صرف مغربی کلچر کی دلدادہ نسل ہی تیار ہو سکتی ہے۔ ٹی وی اور تھیٹر سے لے کر فلم انڈسٹری تک ہر ثقافتی ادارے کو ریفائن کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری ڈرامہ انڈسٹری بھی اس حد تک تباہ ہو چکی ہے کہ پاکستانی ٹی وی چینلزپہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے کئی دفعہ تو یوں لگتا ہے کہ کوئی انڈین فلم دکھائی جا رہی ہے۔ نناوے فیصد ڈرامے ہماری تہذیب، ثقافت اور زبان سے بالکل خالی ہیں۔ جن ڈراموں میں افیئرز نہ ہوں، پروڈیوسر اسے فضول کہانی سمجھتا ہے۔ جو اسکرپٹ رائٹر محبت اور عشق کو جتنا گلیمرائز کر سکے گا وہ اتنا ہی بڑا دانشور اور کہانی کار اور ڈرامہ رائٹرکہلائے گا۔ یعنی پاکستانی میڈیا کے پاس محبت اور عشق کے علاوہ کوئی اخلاقی کہانی موجود ہی نہیں۔

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ پرانے ڈرامہ نگاروں(اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی، منو بھائی) کے ساتھ پاکستان میں ڈرامہ نگاری کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ اب جو ناول خواتین میں ذیادہ مقبول ہوتا ہے اس پہ چینلز ڈرامہ بنا دیتے ہیں جو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھے جا سکتے۔ اسی لیے میں نے کالم کے آغاز میں کہا تھا کہ ہمارے چینلز پر”ڈائجسٹ مارکہ خواتین ناول نگار“ قابض ہیں جنہوں نے مشرقی معاشرے کی انتہائی غیر مہذب تصویر کشی شروع کر دی ہے۔ فلم، اسٹیج اور تھیٹر میں جس انداز میں ثقافت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں وہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت ہیں۔

میری صوبائی وزیر ثقافت فیاض الحسن چوہان اور حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ اس بے ہودگی کا سختی سے ایکشن لیں۔ چیئرمین پاکستان فلم سنسر بورڈ شعیب بن عزیز، ڈائریکٹر جنرل پلاک ڈاکٹر صغریٰ صدف، چیئرمین الحمرا آرٹس کونسل توقیر ناصر اور کیپٹن عطا محمد خان، چیئرین کراچی آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، چیئرمین ساہیوال آرٹس کونسل ڈاکٹر ریاض ہمدانی اورڈائریکٹر فیصل آباد آرٹس کونسل صوفیہ بیدار سے بھی گزارش ہے کہ آپ اس وقت مندرجہ بالا ثقافتی اداروں میں اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں یہ ادارے بلاشبہ زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے بنائے گئے اور اگر ان اداروں میں ہی ہماری تہذیب اور زبان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، ہماری ثقافت کی دھجیاں اڑائی گئیں تو آپ کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ یہ اداروں ان لوگوں کی سربراہی میں دیے جائیں جن کا ثقافت اور ادب کے فروغ کے لیے سنجیدہ کام ہے، یہ سیاسی تقرریاں ختم کر کے اسے اوپن میرٹ پر کیا جائے۔ تقریبا نوے فیصد ادارے سیاسی تقرریوں کے مرہونِ منت ہیں، جو حکومت آتی ہے وہ مذکورہ اداروں میں اپنا سربراہ بٹھا دیتی ہے اور اس ادارے کو اپنی” کٹھ پتلی“ بنا لیتی ہے۔ خدارا اس ظلم سے ان اداروں اور زبان و ادب اور ثقافت کو بچایا جائے ورنہ ہمارے پاس نہ تو زبان اور ادب زندہ رہے گا اور نہ ہی مشرقی ثقافت۔ ساہیول آرٹس کونسل 26، 27 نومبر کو ”اردو ادب:پاکستانی ثقافتیں اور عالم گیریت“ کے موضوع پر کانفرنس کروا رہی جو یقینا قابلِ داد ہے۔ شرکت کے خواہش مند احباب اپنا ابسٹریکٹ اس ای میل پر رابطہ کر کے موضوعات کی تفصیل جان سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).