ایک چھوٹی سی بات


ذکر ہے مُتوسّط طبقے کے ایک خوش حال گھرانے کا کہ جس کے افراد خانہ معقول اور پڑھے لِکّھے لوگ ہیں گھر میں میاں بیوی اُن کے دو بچّے ہیں، خاتون خانہ نوکری پیشہ ہیں نوعمر بچّوں کی ماں ہیں شوہر کی بھی اچھی ملازمت ہے خاتون گھر اور باہر کے تمام مسائیل خود نمٹاتی ہیں کیوں کہ شوہر کی ملازمت کے اوقات کار بھی بہ نسبت اپنی بیگم کے زیادہ ہیں اور کچھ یوں بھی ہے کہ مردوں کی اکثریت کی طرح انھیں بھی گھریلو امور سے کچھ خاص دلچسپی نہیں لہٰذا جیسا کہ خواتین ایسے حالات میں کیا کرتی ہیں مذکورہ خاتون خانہ نے بھی کیا کہ گھر کی کم و بیش تمام ہی ذمہ داریوں کا بار اپنے نازک لیکن مضبوط شانوں پر لے لِیا۔

خاتون ملازمت سے گھر واپس آتی ہیں اور آتے کے ساتھ ہی بیٹی کو ساتھ لگا کے گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہیں شوہر تو آتے ہی دیر سے ہیں جبکہ صاحبزادے یا تو گھر میں ہوتے ہی نہیں اور اگر ہوں تو ماں اور بہن کا ہاتھ بٹانے کے بجائے چیزیں مزید بکھیرنے میں لگے رہتے ہیں اور دونوں ماں بیٹی گھر کے کام کرنے کے ساتھ چیزیں سمیٹ سمیٹ کے ہلکان ہوئی جاتی ہیں بیٹا اپنی چیزیں سمیٹ کے نہیں رکھتا اسکول سے آئے گا تو ایک جوتا کہیں پٹخے گا دوسرا کہیں اور اچھالے گا قمیض اگر بستر پر ہے تو پتلون کرسی پہ ڈالی گئی ہوگی باپ بیٹا کی ایک عادت اور بھی خاتون خانہ کی ذمہ داریوں میں اضافے کا باعث ہے کہ باپ یا بیٹے میں سے کسی کو اگر ایک گلاس پانی بھی چاہیے ہوگا تو ماں بیٹی میں سے کسی ایک کو آواز دی جائے گی کہ ایک گلاس پانی تو لانا، چاہے خاتون خانہ کی طبیعت کتنی بھی خراب کیوں نہ ہو وہ کِتنی ہی تکلیف سے کیوں نہ گزر رہی ہو لیکن گھر کے کام اسے ہی کرنا ہوتے ہیں۔

بے شک گھر کے تمام کام خواتین کی ذمہ داری ہیں انھیں ہی کرنا چاہیے اور وہ کرتی بھی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اپنے ایسے چھوٹے موٹے کام خود کریں جو وہ آسانی سے کرسکتے ہیں جیسے کہ ذاتی استعمال کی اشیا کو ان کی مخصوص جگہوں پر رکھا جائے تو ضرورت کے وقت مطلوبہ اشیا کی تلاش میں دقت نہیں ہوتی اس طرح چیزیں گم نہیں ہوتیں اگر چیزیں جگہ پر ہوں تو صفائی اور جھاڑ پونچھ میں آسانی ہوتی ہے ورنہ چیزیں سمیٹنے میں ہی اچھا خاصا وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ اگر صرف اس حد تک ہی والدہ، بہن یا بیوی کا ہاتھ بٹادیا جائے کہ نہانے کے بعد گیلا تولیہ خشک ہونے کے لیے ڈال دیں، اپنے میلے کپڑے بستر پر ڈالنے کے بجائے دھونے کی جگہ پر رکھ دیے جائییں وغیرہ وغیرہ تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔

بہت عجیب بات ہے کہ جو خواتین شوہر سے اس بات کا گلہ کرتی ہیں کہ وہ گھر اور باہر کی زیادہ تر ذمہ داریاں ان پہ ڈال دیتے ہیں وہ کبھی یہ بات نہیں سوچتی ہیں کہ انھیں اپنے بیٹوں کی تربیت بھی اس نہج پہ کرنا چاہیے کہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اگر بٹا نہ سکیں تو کم از کم اس میں اضافہ بھی نہ کریں مگر بات اس تربیت اور ماحول کی ہے کہ جس میں ہم بیٹی اور بیٹے کے فرق کو روا رکھتے ہیں اور بہت واضح انداز میں روا رکھتے ہیں ہم بیٹی کو تو شروع دن سے یہ بات بہت سختی سے ذہن نشین کراتے ہیں کہ وہ لڑکی ذات ہے اور اسے پرائے گھر جا کے دوسرے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا اور ان کا خیال رکھنا ہے اور وہ بےچاری اس بات کو گرہ میں باندھ لیتی ہے اور خود کو اسی سانچے میں ڈھال لیتی ہے کہ اگلے گھر جاکے اس کے گھر کے ماحول اور سب سے بڑھ کر اس کی ماں کی تربیت پہ حرف نہ آنے پائے لیکن میں لڑکوں کی تربیت اس انداز میں نہیں کی جاتی کہ انھیں بھی دوسرے گھر سے لڑکی کو اپنے یہاں لاکے بسانا ہے اس کے ساتھ زندگی گزارنا ہے تو انھیں بھی وہ عادتیں اپنانا چاہیئیں جو آنے والی کو کچھ نہ کچھ آسانیاں فراہم کرسکیں۔

ہم تو اس دین کے پیروکار ہیں جو اتنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر ان پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے لیکن ہمارے یہاں عمل مفقود ہے۔ ہادی برحقﷺ کی حیات طیبہ ایک بہترین مثال ہے کہ آپﷺ نے کس طرح ازواج مطہرات کے ساتھ زندگی گزاری ان پہ گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے سختی نہیں کی اپنے ذاتی کام اکثروبیشتر خود ہی کیئے، کیا آپﷺ نے اپنے بوسیدہ ہوجانے کپڑوں میں خود پیوند نہیں لگائے؟ اپنے ٹوٹ جانے والے جوتوں کی مرمت خود نہیں کی؟ اپنے غلاموں کا خیال خود نہیں رکھا؟ اور یہ صرف نبی کریمﷺ کی ہی ذات مبارکہ کی خصوصیات و صفات نہیں تھیں بلکہ اس دور کے خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھی حیات ہائے مبارکہ اسی طرز کی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے زحمت کا باعث نہیں بنتے تھے بلکہ کوشش ان کی یہ ہوا کرتی تھی کہ جہاں تک ہوسکے گھر والوں ہی نہیں، ہر ایک کے لیے راحت اور آسانی کا باعث بنیں ہمارے یہاں آج بھی ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو اسلاف کی ان اعلیٰ روایات پر کاربند ہیں اور اللہ پاک توفیق دے کہ ان بہترین خصوصیات پر ہمیشہ عمل پیرا رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).