سیکولرازم کے بارے میں کچھ مقبول مغالطے


حال ہی میں ہونے والے صدارتی الیکشن سے قبل پاکستان میں صدرمملکت کی عہدے کے لئے ایک نامزد امیدوار نے عہدہ صدارت کے ایک دوسرے امیدوار بیرسٹراعتزازحسن کی اہلیت سے متعلق سوال اٹھاتے ہویے کہا ہے کہ سیکولر اور لبرل شخص آئین پاکستان کی نظریاتی نمائندگی نہیں کرسکتا۔

یہ بیان سے سیکولرازم کے حوالے سے ہمارے ہاں رائج دوٹوک اور قطعی فہم نیز ایک ”نظریاتی مملکت“ کودرپیش تہہ درتہہ پیچیدگیوں کی ایک اجمالی تصویر کے نقوش واضح ہوتے ہیں۔ اصطلاحات کی تطبیق اور اطلاق ایک عجیب طرح کامعاملہ ہے۔ گا ہے ایک اصطلاح کو اپنے ابتدائی ماحول اور لفظی ریشے کوسمجھے بغیر سمجھنا دشوار ہوتا ہے اور گا ہے ان کی لغوی ماخذ اور ابتدائی استعمالات سے قطع نظر کرکے ایک اصطلاح پر بعد میں آنے والے سیاسی تاریخی اور علمی اثرات کے تحت اس اصطلاح سے وابستہ ہونے والے نیے مفاہیم اور تصورات کو سامنے رکھناپڑتاہے، اس صورت میں ایک اصطلاح کے لئے محض لغوی مفہوم اور پس منظر کے ساتھ مصداقات کی تلاش سے درست فہم حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے کیونکہ خالص علمی اور ساینسی تصورات کو چھوڑ کر دوسرے تمام اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی تناظر میں برتے جانے والے مفاہیم کے تاسیس کے دور سے ان کے استقرار کی عہد تک، زمان ومکان کی تقاضوں کے ساتھ برابر ترمیم اور تبدیلی کے دوش پر سوار رہتے ہیں۔

اس ضمن میں دوسرا اہم مسئلہ کلیت اور عمومیت کا ہے۔ جب ایک اصطلاح کو کلی شکل میں ڈھال کر اس کی ایک خاص صورت سے وابستہ احکام اس کی ہرصورت سے متعلق سمجھے جائیں تو یہ رویہ تقسیم بندی اور جزئیت بخشی کو معیاری علم اور صحیح فہم کے لئے ضروری قرار دینے کے بنیادی علمی اصول کی بھی مخالفت ہے۔

سیکولرازم کی اصطلاح کے ساتھ ہمارے ہاں یہ دونوں قسم کی واردات پیش آئی ہیں اور اس کو ”خدا کے انکار“ کاہم معنی لفظ ثابت کرنے کے لئے ایک تو اس ٹرم کی تفہیم کا آغاز اس کی جنم بھومی سے کر دیا جاتا ہے اور پھر سیکولرازم کی ہرنوع کو ”خدا کا انکار“ کے محور کھونٹی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور مغالطہ بھی استعمال کیا جاتا ہے جب یہ سمجھا جائے کہ سیکولرازم کا مطلب خدا کا انکار ہے تو پھر سیکولر سٹیٹ کے مقابل اور متضاد ریاست کو بھی اپنے اصل شکل میں، اور اس حلیے کے ساتھ پیش کرناچاہیے جس کی ردعمل میں سیکولرازم وجود میں آیا تھا۔ اور ریاست کی وہ شکل خالصتا تھیو کریٹک تھی، یعنی جس میں صرف قوانین کا منبع ہی نہیں بلکہ اقتدار کا حق حاصل کرنا بھی مذہبی تقدس پر قایم تھا، یعنی ایک خاص گروہ کے پاس ہی حکومت کرنے کا اختیار جوکہ ماخوذ بھی مذہب سے ہی ہوتا ہے۔

لیکن اس باب میں بددیانتی یہ کی جاتی ہے کہ سیکولرازم کی تعبیر وتعریف تو اس کی اساس سے شروع کی جاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایسی جدید ماڈل مذہبی ریاست رکھی جاتی ہے جہاں حق حکمرانی کاسرچشمہ توعوام کا انتخاب ہوتا ہے لیکن اس کے بعد اس حکومت کو کچھ رہنما اصولوں کاپابند سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ایک آئیڈیل اور مثالی سیکولر سٹیٹ کا تقابل ایک ترمیم شدہ اور عملی طور پر موجود نظریاتی ریاست سے کیا جاتا ہے۔

اس بات سے انکار نہیں ہے کہ ایک ایسے سیکولرازم کا وجود نہیں ہے جوخدا کے انکار یاکم ازکم اسے ”غیرموجود“ فرض کرکے انسان اور جہان کو موضوع بناتا ہے لیکن سیکولرازم کی اس مقدمے کے ساتھ آگے بڑھنا فلسفیانہ سیکولرازم کی خصوصیت ہے نہ کہ سیاسی سیکولرازم کی۔ سیکولرازم کی اس تقسیم کو واضح کرنے کے لئے اس کے عربی متبادلات سے اچھی مددملتی ہے گوکہ عربی میں اس کو سیکولرازم کی لفظ کے مختلف احتمالی معانی کی حیثیت سے جگہ دی گئی ہے نہ کہ سیکولرازم کی مختلف اقسام کے طور پر، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عربی میں مستعمل دونوں متبادل سیکولرازم کے دومختلف ممکنہ مفاہیم کے بجائے سیکولرازم کی دو مختلف مکاتب فکر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عربی میں سیکولرازم کے لئے ایک متبادل علمانیت ( عین پر زیر کے ساتھ ) اور دوسرا عَلمانیت ( عین پر زبر کے ساتھ ) موجود ہیں۔ پہلے کا مطلب ہے علمیت، یعنی دنیا اور اس کے مظاہر کے حوالے سے اپنی رائے کی اساطیری اور مابعدالطبعیاتی عناصر کے بجائے علمی اور سائنسی بنیاد پر تشکیل، جبکہ دوسرے لفظ کا معنی ہے دنیا کے امور کودنیاوی تقاضوں کے بنیاد پر پرکھنا اور برتنا۔

فلاسیفیکل سیکولرازم موجودہ سائنس کی نظریاتی اساس ہے جبکہ سیاسی سیکولرازم موجودہ جدید ریاستوں کی عملی شکل۔ فلاسیفیکل سیکولرازم کی بنیاد اس مفروضے پررکھی جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کے تمام تحرکات اور تحولات خود ہی ایک دوسرے کی تشریح وتفسیر کے لئے کافی ہے، تمام طبیعی امور کے لئے محسوس طبیعی علتیں موجودہیں اور اس کے لئے مزید کسی ماوراء الطبیعت غیبی ہستی درکار نہیں ہے۔ جبکہ سیاسی سیکولرازم میں اس مر سے بحث ہی نہیں کی جاتی یہ معاملات اس کے دائرہ فکروعمل میں داخل ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ صرف اور صرف حکومت کی آئیڈیالوجیکل غیرجانبداری کانام ہے، فلسفیانہ سیکولرازم پریقین رکھنے والے فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیاسی لحاظ بھی سیکولرہو لیکن سیاسی سیکولرازم پر یقین رکھنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ فلسفیانہ سیکولرازم پر بھی ایمان لایا جائے۔

اس تناظر میں سوویت یونین باوجودیکہ ایک لامذہب ریاستی اتحاد تھا لیکن سیکولر ریاست پھر بھی نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے شہریوں کی مذہبی عقیدے کو لامذہبیت میں تبدیل کرنے کی منصوبے پرکاربند تھی جبکہ مثلا ترکی کی موجودہ ریاست اس کے باوجود بھی سیکولر ہے کہ حکومت کی کٹر مذہبیت کے باوجود ریاست اپنے شہریوں کی مذہبی نسبت سے غیرجانبدار ہے۔

پاکستان جیسے ملکوں کے حوالے سے اس سوال کا ایک دوسرا تناظر بھی اہم ہے۔ یہاں ہم نے ’مذہبی ریاست‘ اور ’ریاستی مذہب‘ کے تصور کو اس طرح خلط ملط کردیا ہے کہ گویا کسی ریاست کی مذہبی ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کا کوئی رجسٹرڈ ریاستی مذہب ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ریاستی مذہب اور مذہبی ریاست بھی دو انتہائی مختلف تصورات ہیں۔ کسی ریاست کی ’ مذہبی ’ ہونے سے صرف اس ریاست کی شناخت اور تشخص کاتعین ہوتا ہے۔ مذہبی ریاست کا معنی ہے خدا پرستی کو رسمیت کے ساتھ تسلیم کرنے والی ریاست، یہ گویا دنیا کی خالص مادہ پرستانہ تعبیرات کے مقابل موقف کو اخلاقی اور سیاسی تائید بخشناہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ عمل میں بھی اس موقف کے کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ اثرات خدا کی انکار کے بنیاد پرقایم ریاستی بندوبست سے اس ’مذہبی ریاست‘ کو الگ کرتے ہیں۔

مثلا اس لحاظ سے امریکہ ایک مذہبی ریاست ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں، اور اس مذہبیت کا اظہار ریاست امریکہ کی جانب سے اپنے تمام شہریوں کی مذہبی حقوق اور آزادیوں کی تحفظ کی صورت میں ہوتا ہے۔ امریکی حکومت چونکہ ’ مذہبی ریاست ’ ہے لیکن کسی مذہب کو ’ ریاستی مذہب ’ کا امتیاز نہیں دیتا لہذا امریکن حکومت اس امر کی قطعا مجاز نہیں ہے کہ وہ شہریوں کے ٹیکسوں کاپیسہ چرچز کی تعمیر پر لگائے البتہ شہریوں کو پوری آزادی ہے کہ وہ اپنے لیے مذہبی عبادت گاہیں اور مذہبی تعلیم کی درسگاہیں منظم کریں۔ اب ایک حیرت انگیز پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اس مفہوم میں ایک سیکولر ریاست ہی مذہبی ریاست کہلاسکتا ہے۔

جبکہ

’ریاستی مذہب‘ کی اصطلاح سے ریاست کو نہیں بلکہ متعلقہ مذہب کو ایک نئی شناخت اور تعبیر مل جاتی ہے۔ ریاستی مذہب کی تعین سے پیداہونے والا سب سے بڑا مسئلہ مذہبی تکثیریت ( pluralism ) کی نفی اور اس فکری وحدانیت اور یکسانیت کا مطالبہ ہے جو کہ عملا ویٹیکن جیسی محدود جغرافیے اور مختصر آبادی پر مشتمل ریاست میں ہی ممکن ہے

اس لیے سیکولرازم کی رایج موجودہ شکل کو ”خدا کے انکار“ کی فلسفے سے نتھی کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ جمہوریت یعنی عوام کی حق حاکمیت کو خدا کے حق حاکمیت کا مقابل سمجھا جائے۔
( 1 ) دنیوی امور کی اصالت
( 2 )مذہبی طبقے کی طبقاتی بنیاد پر حکومت کرنے کی حق کی نفی اور
( 3 )مذہب وحکومت کی دایرہ کار کی ایک دوسرے سے علیحدگی

یہ تین مراحل سیاسی سیکولرازم کی ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے لازمی اجزاء ہیں کیونکہ جب حکومت محض ایک مذہبی ادارہ ہو تو ایک مذہبی ادارے کی اقدامات کا محور ظاہر ہے شہریوں کی مذہبی ترقی ہوگی اور یہ کام صرف ایک ایسے طبقے کے ہاتھوں حاصل کیاجاسکتا ہے جس کے پاس صرف اور صرف مذہبی حیثیت اور اتھارٹی ہو لہذا ان میں سے ایک کی نفی کرنے کے لئے باقی دونوں کی بھی نفی ضروری تھی۔

مسیحی دنیامیں اس تصور سے بھونچال کا آنا اس لیے بدیہی امرتھا کہ وہاں چرچ کی عملداری کے ریشے بہت اوپر سے بہت نیچے تک پھیلے ہویے تھے۔ مسیحیت میں آج بھی نکاح کا انعقاد چرچ کی نمایندے کے بغیر ناقابل قبول ہے جبکہ اسلام کے حوالے سے ایک مکتب کی رائے ہے کہ اس میں اس قسم کی کوئی پابندی موجود نہیں ہے۔ 1925 میں جامعہ ازھر مصر کے شیخ علی عبدالرزاق نے ” الاسلام واصول الحکم ” کے عنوان سے ایک معرکہ الآراء کتاب لکھی تھی، کتاب میں اس محوری تصور کو ثابت کرنے کے لئے علمی اور تاریخی شواہد فراہم کیے گیے ہیں کہ خلافت کا ادارہ مذہبی حاکمیت کا ہم معنی نہیں ہے حتی کہ پیغمبراسلام نے بھی حکمرانی کا حق مذہب سے اخذ نہیں کیا تھا۔

سیکولرازم کا محاکمہ جن نظری بنیادوں پر کیا جاتا ہے، نظریاتی بنیادوں پر قائم ریاستوں کے عملی مخصمے اس سے زیادہ گھمبیر ہوتے ہیں۔ سیکولر بھارت میں ایک مذہبی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والے عبدالکلام صدر جمہوریہ بن سکتے ہیں لیکن ایک مسلمان نظریاتی ملک کی صدارت کے لئے نامزد ایک مسلمان امیدوار کے بارے میں ایک مذہبی رہنما اعلان کرتا ہے کہ ”سیکولر، لبرل اعتزاز حسن آئین پاکستان کی نظریاتی حیثیت کی نمائندگی نہیں کرسکتا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).