کامیاب عورت اور کمتر مالی


غریب اور نادار بچوں میں تحائف اور نقد رقوم تقسیم کرنے کے لیے شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں تقریب منعقد کی گئی تھی۔ غذائی کمی کا شکا زرد چہروں والے بچے، عام سے بھی کم درجے کے کپڑوں، پیوند لگے جوتوں اور تیل سے چپڑے ہوئے بالوں کے ساتھ موجود تھے۔ گھبرائے، شرمائے بچے ایک ایک کر کے اسٹیج پر آتے، میں ان کو والہانہ گلے لگاتی، گال چومتی، کچھ دیر ان کے کانپتے ہاتھوں کو تھام کر کیمرے سے نظریں ملاتی اور تحائف دے کر محبت سے رخصت کردیتی۔

شہر کے سارے بڑے اخبارات اور چینل کے نمائندے اس تقریب کی کوریج کے لیے مستعد تھے۔ میرا اکلوتا بیٹا فراز، خصوصی مہمانوں کے لیے مختص اگلی نشست میں ایک آرام دہ صوفے میں دھنسا ایک ٹک مجھے ہی دیکھے جا رہا تھا۔ میں اتنے سالوں میں پہلی بار کسی تقریب میں اسے ساتھ لے کر گئی تھی۔ وہ بچپن کی آخری آخری سرحد پر تھا۔ میرے نزدیک یہی وقت سب سے مناسب تھا کہ وہ معاشرے میں اپنی ماں کا بلند مقام پہچانے، تاکہ آگے کی منزلوں کو زیادہ اعتماد کے ساتھ سَر کر سکے۔ اسٹیج سے میں نے کئی بار فراز کی طرف تفاخر بھری نگاہوں سے دیکھا اور اس کو آگے بھی ان تقریبات میں لانے اور ہائی سوسائٹی میں متعارف کروانے کا ارادہ باندھ لیا۔

اب ضروری تھا کہ وہ یہاں کے طور طریقوں سے واقف ہو جائے تاکہ پہچان بنانے کے لیے اسے زیادہ جتن نہ کرنے پڑیں۔ یہ تقریبات اس کی ذاتی تربیت اور بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات بنانے کے لیے بہترین تھیں۔ پوری تقریب میں فراز گہری سوچ میں گم تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ یہی سوچ رہا ہے کہ آج صرف اور صرف اپنی ماں کی وجہ سے، ان مفلوک الحال بچوں کے درمیان کسی راجا کی طرح جگمگا رہا ہے۔ اس یقین نے میری مسکراہٹ اور گہری کر دی۔

ستائشی نظروں، تالیوں کے شور اور کیمرے کی فلش لائٹوں میں گھری بے انتہا اعتماد کے ساتھ میں اس تقریب کا مرکزی کردار نبھا رہی تھی۔ دس سال سے ملک کی ایک بڑی این جی او کو کام یابی سے چلا کر جو عزت اور شہرت میں نے حاصل کی، وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس مقام کو حا صل کرنے کے لیے میں نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے! صبح دیکھی نہ رات، سُکھ دیکھا نہ آرام، گھر دیکھا نہ خاندان، بس کام میں جُتی رہی۔ یہ میرا کام سے عشق ہی تھا جس نے مجھے اس مقام پر پہنچایا کہ کام یابی میرے پیچھے بھاگنے لگی۔ بہت کم عرصے میں عزت، شہرت اور پیسہ سب چیزیں مجھے وافر سے بھی زیادہ مقدار میں میسر آگئیں۔ اسی سبب فرازبے پناہ آسائشوں کی گود میں پروان چڑھا۔ ملازم ہمیشہ اس کے ایک اشارے پر متحرک رہتے۔

بڑے سے بنگلے میں اس کے آرام وسکون کا وہ کون سا سامان تھا جو میں نے دنیا بھر سے منگوا کر سجایا نہیں تھا۔ سوئمنگ پول اور ٹینس کورٹ تو اس کی فرمائش پر پچھلے ہی دنوں تیار کروائے تھے۔ چھوٹی سی ہی عمر میں ماہر اساتذہ کی نگرانی میں وہ فر فر انگریزی، فرانسیسی اور چینی زبانیں بولنے لگا تھا۔ دنیا کی وہ کون سی نعمت تھی جو میں نے اس کے قدموں میں ڈھیر نہیں کی۔ میری دن رات کی کاوشیں ہی تو تھیں کہ آج فراز اور زرد چہروں والے ان بچوں کے درمیان زمین آسمان کی وسعتوں سے بھی کہیں زیادہ کا فرق صاف نظر آرہا تھا۔

تقریب ختم ہوئی اور میں لوگوں سے ملنے ملانے لگی۔ اچانک کسی نے پیچھے سے میرا ہاتھ مٹھی میں جکڑ لیا۔ میں ایک دم مڑی تو فراز تھا۔ میں اسے دیکھ کر مسکرائی، ماتھے پر بکھرے اس کے بالوں کو سمیٹ کر پیچھے کیا اور اپنے ساتھ لیے لوگوں سے بکھری ہوئی گفتگو کا سلسلہ پھر جوڑدیا۔ میں بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی۔ یہاں سے مجھے دفتر اور پھر ایک میٹنگ میں جانا تھا۔ روز کی طرح آج کا شیڈول بھی بہت ٹف تھا لیکن فراز میرے ساتھ پورا دن گزارنے پر مصر تھا۔ مشکل سے ہی سہی پر میں نے سمجھا بجھا کر اسے گھر روانہ کردیا۔ مؤدب ڈرائیور نے اس کے لیے بڑی سی گاڑی کا دروازہ کھولا اور میں اطمینان سے پلٹ گئی۔ اطمینان کیوں نہ ہوتا؟ یہ ساری تگ ودو اور بھاگ دوڑ میں اسی کے لیے تو کر رہی تھی۔

ایک بہت تھکا دینے والا دن گزار کر رات گئے میں گھر کو لوٹی تو ہر رات کی طرح فراز سو چکا تھا۔ میں کمرے میں گئی اور کمبل سے جھانکتے اس کے چہرے کو چوما اور اپنے کمرے میں آگئی۔ بستر پر گرکر صبح کی خبر لائی۔ صرف چھے گھنٹے کی نیند لینے کی وجہ سے بستر چھوڑنے کی ہمت نہ تھی۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر نئے دن کی مصروفیات کا جائزہ لینے لگی۔ آج بھی کاموں کی لمبی فہرست تیار تھی۔ سب سے پہلے این جی او کے صدر کے ساتھ میٹنگ تھی۔ پھر ایک پریس کانفرنس اور صحافیوں کے ساتھ لنچ۔ وہاں سے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے جانا تھا اور پھر دفتر کے معاملات الگ منتظر تھے۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر میں نے اخبارات اٹھائے جو چائے کی پیالی کے ساتھ ملازم کچھ دیر قبل ہی رکھ گیا تھا۔

اخباروں میں کل کی تقریب کی بہترین کوریج دیکھ کر میں تازہ دم ہوگئی۔ ایک بھرپور انگڑائی لے کر اٹھی اور سورج کی کرنوں کے استقبال کے لیے پردے کھسکا دیے۔ لان میں مالی اور اس کے بچے کام میں مصروف تھے۔ اور وہ سارے پھول کھِل کر مسکرا رہے تھے جو میں نے کچھ مہینوں قبل ہی پیرس سے امپورٹ کیے تھے۔ گرم گرم چائے سے خود کو پرسکون کرتے ہوئے میں اپنے خوب صورت لان کا جائزہ لے رہی تھی کہ میری نظر ایک کونے پر جاکر ٹھہر گئی۔ جہاں تھی وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ کر گر چکا تھا۔ نہیں! نہیں۔ میرے اندر کوئی چیخ رہا تھا۔ میری آنکھیں دھوکا تو نہیں کھا رہیں؟ میں، شہر کی کام یاب ترین عورت، اپنے اندر منہ کے بل گرچکی تھی۔ فراز عام سے بھی کم درجے کے کپڑوں، پیوند لگے جوتوں اور تیل سے چپڑے ہوئے بالوں کے ساتھ، پسینے میں شرابور، زمین پر اکڑوں بیٹھا مالی کے بچوں کے ساتھ کیاری کھود رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).