رضا علی عابدی , بی بی سی, اسکردو


اب کی بار 30سال بعد 2018میں رضا علی عابدی سکردو آئے تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ معاشی حالت، تعلیمی ماحول اور معاشرتی قدریں۔ نئی سڑک بن رہی ہے۔ شہر میں کسٹم کے بغیر ملنے والی نئی نکور گاڑیوں کی بہتات ضرور ہے لیکن چلانے کے لئے نہ سڑکیں ہیں اور نہ پارکنگ کا انتظام، بنک، دفاتر، سکول، کالج، یونیورسٹی، شاپنگ سنٹر اور ہوٹل کیا کیا غم روزگار نے نہیں دیا ہے اور پھر اخبارات، ٹی وی، کیبل، انٹرنیٹ اور موبائل فون ایسا لگتا ہے کہ یکدم سے پُرسکون ماحول میں اچانک تندوتیز لہروں نے چلنا شروع کر دیا ہے اور سب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو۔

وہ کھیت کھلیان اور سبزے کے قطعات جہاں گندم اور جو کے خوشے ہر طرف سنہری رنگ بکھیرتے تھے اور گھروں کے ساتھ جڑے ہوئے باغیچوں میں رس بھری خوبانی، آلوچے اور شہتوت کے درخت ہوا کرتے تھے نیز پالک، شلغم اور مٹر کی پھلیوں کے جالر کے جالر آنکھوں کو تراوٹ بخشتے تھے اب غائب ہیں اور وہ جگہ سیمنٹ، سریے کی بلند اور بے ترتیب عمارتوں سے ڈھک چکی ہے اب تو سبزیاں بھی سوات اور مالاکنڈ سے آتی ہیں اگر ایک دن سڑک بند ہو جائے تو گھروں میں ٹماٹرنہ پودینہ۔

ایک چیز جو نہ بدلی ہے وہ یہاں کے لوگوں کا خلوص، عاجزی اور مہمان نوازی جس کا تذکرہ رضا علی عابدی نے ہر محفل میں کیا۔ ہاں ایک بات انہوں نے ضرور محسوس کی ہوگی کہ لوگ اب بھی رضا علی عابدی اور بی بی سی کو بخوبی جانتے ہیں اور دل سے لگائے بیٹھے ہیں۔ رضا علی عابدی جب 1992میں سکردو آئے تو انہوں نے اس وقت بی بی سی اردو سروس کے لئے ایک دستاویزی پروگرام کرنے کی ٹھان رکھی تھی جس میں دریائے سندھ منبع سے لے کر بحیرہ عرب میں گرنے تک یہ عظیم دریا جن بلند گھاٹیوں، تنگ گزرگاہوں سے ہوتا ہوا پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں سے گزرتا ہے اس کے کناروں پر بودوباش رکھنے والے لوگوں کی معاشرت اور سماجی تغیر کا مشاہدہ کرنا تھا اور اس ریڈیائی پروگرام کو انہوں نے دریائے سندھ کے قدیم تبتی نام ”سنگھے کھا بب‘‘ کی مناسبت سے ”شیر دریا‘‘ کا نام دیا تھا۔ واقعتا یہ شیر دریا ہے جو کہ صدیوں سے ہمالیہ کی بلندیوں سے تنگ گھاٹیوں، ڈھلوانوں اور پہاڑیوں پر شیر کی طرح غراتا ہوا، جھاگ اڑاتا میدانی علاقوں کی طرف بہا جا رہا ہے۔ انڈس ویلی سویلائزیشن ہو یا اپر انڈس ویلی دریا اس کے کنارے آباد تہذیبوں کا رنگ جدا جدا لیکن خوبصورتی سے جڑا ہوا ہے۔

اردو ریڈیائی سفرناموں کا سہرا بھی شاید رضا علی عابدی کے سر جاتا ہے بی بی سی اردو سروس میں خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ذریعے ان کی مسحور کن آواز برصغیرپاک و ہند کی اکثریتی تعداد کو ریڈیو کا سامع بنا چکی تھی لیکن شہر تو شہر دنیا سے دور بلند پہاڑوں میں گھرا ہوا گلگت بلتستان کا خطہ بھی بی بی سی اور رضا علی عابدی سے ناآشنا نہیں تھا کہتے ہیں کہ ریڈیو سیٹ 1947 سے بہت پہلے گلگت بلتستان آیا اور ریڈیو پاکستان سکردو اور ریڈیو پاکستان گلگت تو بہت بعد میں قائم ہوئے ہیں بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں بہت ہی کم لوگوں کے پاس ریڈیو ہوا کرتا تھا بلکہ ہمیں بھی کم کم یاد ہے کہ تیس پینتیس سال پہلے گلگت بلتستان کے بڑے قصبوں میں شاید کچھ ریڈیو موجود ہوں لیکن دیہاتوں میں بہت ہی کم لوگوں کے پاس ریڈیو ہوتا تھا

دن بھر کے کام کاج اور سخت مشقت سے تھکے ہوئے بزرگ، جوان اور پھر بچے کسی ایک گھر میں جمع ہوتے اور ریڈیو سنتے تھے خاص طور پر سردیوں میں بخاری پر چٹختی لکڑیوں کا الاؤ تاپتے ہوئے جب اوطاق پر رکھے ہوئے ریڈیو سے ”یہ بی بی سی لندن ہے‘‘ کی آواز ہر طرف پھیل جاتی تھی تو لوگ ہمہ تن گوش ہوتے اسی ریڈیو سروس کے ذریعے رضا علی عابدی کی آواز سنی گئی اور ایک جہاں ان کا گرویدہ ہوا۔

آواز کی مٹھاس، شاندار تلفظ اور منفرد انداز دلوں کے دروازے کھولتا گیا اور تو اور بلتستان کا شنگو شغر ہو یا ہرپوہ، ارندو ہو یا گنوخ کا گاؤں، ہوشے سلترو ہو یا دیامر کا پھوگچ یا کھنبری، غذر کا پھنڈر ہو یا طاؤس، گلگت کا بگروٹ ہویا برمس، استور کا مِنی مرگ ہو یا شنکرگڑھ، ہنزہ نگر کا بروشل ہویا مسگر کا گاؤں غرض گلگت بلتستان کی بلند و بالا چوٹیوں پر ٹکے ہوئے یہ تمام الگ تھلک گاؤں جہاں ہر کسی کو دوسرے گاؤں کی خبر نہ تھی مگر بی بی سی اور رضا علی عابدی کو ہر کوئی سنتا اور جانتا تھا۔

تیس سال پہلے جس ریڈیائی ڈاکومنٹری ”شیر دریا‘‘ کے لیے وہ لداخ کے بعد سکردو آئے تو یہاں کی طرز زندگی اور سماجی تبدیلی کو جاننے کے لیے ہر کسی سے ملے۔ جہاں راجہ محمد علی شاہ صبا سے بلتستان کی وادیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی وہی پر وزیر غلام مہدی سے بلتستان کے باشندوں میں آرین اور منگول خدوخال کی وجہ کھوج ڈالی۔ ان پہاڑوں میں اترنے والی ”نئی روشنی‘‘ سکولوں کے اس وقت کے منتظم یوسف حسین آبادی سے لوگوں کا علم کے لیے اشتیاق اور موجود سہولیات کا پوچھا وہیں پر نئی نسل کی رائے جاننے کے لئے نرگس وزیر، فزا وزیر اور رخسانہ احمد سے لڑکیوں کی تعلیم کی صورت حال اور معاشرے کا رویہ جاننے کا کام بھی کیا۔

اور اب تیس سال بعد وہ دوبارہ یہاں آئے تو 90سال کے پیٹے میں تھے مگر یادداشت اور حافظہ کمال کا، ان کے اعزاز میں کئی محفلیں برپا ہوئیں۔ ہر کوئی ان سے ملنا اور ان کو سننا چاہتا تھا۔ دو محفلیں خاص تھیں ایک سکردو پریس کلب میں اور دوسری ریڈیو پاکستان سکردو میں۔ جہاں انہوں نے تیس سال پہلے کے سکردوکی یادیں تازہ کیں۔ سامعین کے مختلف سوالوں کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی مقبولیت کا بنیادی راز، درست تلفظ، آواز اور کانٹینٹ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سفر نامے تو بہت لکھے جاتے ہیں اور ان میں منظر نگاری بہت کی جاتی ہے مگر میرے سفرناموں میں جو منظر بولتا ہے وہی بلاکم کاست بیان ہوتا ہے اس میں رنگ آمیزی نہیں ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ”جناتی اردو‘‘ استعمال نہیں کرتے بلکہ سادہ اور شستہ اردو کیونکہ ان کے لکھنے اور بولنے کا مقصد عام آدمی تک بات پہنچانا ہے۔

اور جب ہم ان کی مشہورکتابیں جو کہ ریڈیائی پروگراموں کو ترتیب دے کر شائع کی گئی ہیں ان میں ”شیردریا‘‘، ”ریل کہانی‘‘ اور ”جرنیلی سڑک‘‘ پڑھتے ہیں تو واقعتا لگتا ہے کہ ان کا موضوع سخن عام آدمی ہے۔

”جرنیلی سڑک‘‘ میں پشاور صدر بازار کے پرانا ڈاک بنگلہ کے ساتھ سڑک پر اوندھے پڑے میل کا پتھر(زیرو پوائنٹ) کے پاس پر ملنے والا رکشہ والا ہو یا پندرہ سو میل جی ٹی روڈ کا سفر طے کرکے کلکتہ کے بوٹینکل گارڈن کے صدر دروازے پر ملنے والا کلیم الدین ہاشمی ہو یا ریل کہانی میں کوئٹہ کا ریلوے سٹیشن جس کی لائنیں 1886میں انگریزوں نے علاقے میں اپنے استحکام کے لئے ڈالی تھی کاریل قلی جگنو سے لے کر کلکتہ کا ہاؤڈا سٹیشن جو کہ برصغیر کا پہلا اور بڑا ریلوے سٹیشن ہے جہاں سے 3فروری 1855کو پہلی ریل گاڑی چلی کے ”برج نرائن گپتا‘‘ تک۔ ‘‘ شیردریا‘‘ میں لداخ کے بالائی گاؤں ”اُپشی‘‘ کے پشمینہ بکریوں کے چرواہے محمد علی خان سے لے کر 1500میل کا سفر طے کرکی بحیرہ عرب کے قریب دریائے سندھ کے آخری کنارے پر موجود شاہ بندر گاؤں (گوٹھ) کا گل محمد ہو رضا علی عابدی کی تمام کی تمام روئیداد سفر عام انسانوں سے مکالمہ کی ہے۔

”شیردریا ‘‘ میں تیس سال پہلے جوایک خاص بات گلگت بلتستان کے حوالے سے رضا علی عابدی نے لکھی تھی وہ اب بھی جوں کی توں ہے وہ نہیں بدلی۔ انہوں نے تیس سال پہلے لکھا ہے ”یہ علاقہ (گلگت بلتستان) قابل رحم ہے نہ کشمیر میں ہے نہ پاکستان میں نہ ان لوگوں کی کسی اسمبلی میں نمائندگی ہے نہ پارلیمنٹ میں‘‘

تو رضا علی عابدی کو خبر دی جاتی ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو تو ستّر سال بعد آئینی تحفظ ملا مگر گلگت بلتستان کے لوگ اب بھی گورننس آرڈر2009اور گورننس آرڈر2018کے بھول بھلیوں میں گم ہیں۔ غالب کیا کہہ گئے ہیں ؂
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).