فواد چوہدری بس اتنا ہی کر سکتے تھے



میں کئی حوالوں سے تحریک انصاف کے نظریات اور سیاست سے اختلاف رکھتا ہوں اور دستیاب حقائق کی بنا پر مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کا خواب حقیقت بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس تناظر میں میں عاطف میاں کے ایک مخصوص عقیدہ رکھنے کی بنا پر اقتصادی مشاورتی کونسل سے ہٹائے جانے کے عمل جسے “یو ٹرن” بھی کہا جا سکتا ہے کو ایک سنہری موقع جانتے ہوئے عمران حکومت بالخصوص وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو ہدف تنقید بناتا۔ میری رائے میں فواد چوہدری جو کچھ کر یا کہہ سکتے انہوں نے وہ خوب کیا۔

اپوزیشن میں تو آپ کی ذمہ داری محض تنقید کرنا ہوتا ہے۔ آپ کسی سرکاری پالیسی یا فیصلہ میں تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی اس سلسلہ میں آپ پر کوئی دباؤ ہوتا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد حالات ذرا مختلف ہو جاتے ہیں آپ پر دباؤ نہ صرف پارٹی کے اندر سے آتا بلکہ آپ کو کچھ سیاسی’ غیرسیاسی’ اور سرکاری’ نیم سرکاری اور غیرسرکاری حلقوں کو بھی ایک حد تک خوش رکھنا ہوتا ہے۔ فواد چوہدری کیونکہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ اپوزیشن کی آزادی اور حکومت کی مجبوریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ عاطف میاں کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں بحثیت رکن تقرری اور عقیدہ کی بنیاد پر ان پر ہونے والی تنقید کا جواب جس جرات مندی سے فواد چوہدری نے دیا اس پر تمام امن پسند ، مذہبی رواداری اور مساوات پر یقین رکھنے والے حلقوں جن میں عمران حکومت کے ناقدین بھی شامل تھے نے بے حد سراہا۔

میں نے گذشتہ تین دہائیوں میں کسی سیاسی رہنما چاہے وہ اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں کبھی اقلیتوں کے مسئلہ پر اتنے بے دھڑک اور واضح انداز میں بولتے نہیں دیکھا۔ فواد چودہدری عمران حکومت کے ایک نمائندہ ہیں اور ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ حکومت کا ایک نمائندہ اپنے چیف ایگزیکٹو کی مرضی کے بغیر ایک حساس معاملہ پر اتنے بے دھڑک انداز میں نہیں بول سکتا۔ سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فواد چوہدری نے ایک اقلیت کے معاملہ پر حکومت کی پالیسی واضح کی۔ لیکن افسوس پاکستان کو نیا پاکستان بننے میں ابھی کچھ دیر لگےگی۔ فواد چوہدری کی نیت پر کوئی شک نہیں وہ پاکستان کو ایک ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں اقلیتوں کو بحیرہ عرب میں نہ پھینکا جائے۔ ایسا نیا پاکستان جہاں کے عوام میں اعلٰی عہدوں کے لیے مسابقت علم کی بنیاد پر ہو نہ کہ مذہب اور عقیدہ کہ بنیاد پر۔

افسوس مگر اس بات پر بھی ہے کہ جب ہماری سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو وہ حکومت کو گرانے یا مشکلات میں ڈالنے کے لئے مذہب کو استعمال کرتی ہیں اور مولانا خادم حسین رضوی اور طاہرالقادری جیسے کرداروں کا ساتھ دیتی ہیں۔ اس سلسلہ میں تحریک انصاف کا ماضی دیگر جماعتوں سے مختلف نہیں۔ لیکن ماضی قریب یا بعید میں جو بھی ہوا ہو یہ بات سچ ہے کہ عارف میاں کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں تقرری اور پھر ان کے مذہبی عقیدہ پر ایک اصولی اور جراتمندانہ موقف اختیار کرنے پر تمام لبرل حلقوں نے عمران حکومت بالخصوص فواد چوہدری کے بیانات کو سراہا۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی عارف میاں کی حمایت میں ٹویٹ کی۔ پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ شہلا رضا کو عاطف میاں کے عقیدہ سے متعلق سوال اٹھانے پر سوشل میڈیا پر بے پناہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے اس سلسلہ میں جاری کردہ ٹویٹ نہ صرف واپس لیا بلکہ وضاحت دی کی ان کی ٹیم کے ایک رکن سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔

اس ساری اخلاقی حمایت کے باوجود بھی عمران حکومت اور فواد چوہدری کو مجبورا اپنا اصولی موقف بدلنا پڑا۔ انہیں ایسا کیوں کرنا پڑا ہمیں اس بات کا بھی علم ہے۔ سلمان تاثیر پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ کے گورنر تھے۔ لیکن اپنے ایک سرکاری محافظ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کی اپنی پارٹی اور سب پر بھاری رہنما نے بھی اس پر اپنا احتجاج اس طرح ریکارڈ کرایا جیسے ہماری فلموں میں کوئی مزارع اپنے کسی پیارے کے قتل پر جاگیردار کے سامنے اپنی بے بسی پر آنسو بہا کر کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو مولانا خادم رضوع نے زیر کیا اور ایک وفاقی وزیر کو اپنے عہدہ سے نہ صرف ستبردار ہونا پڑا بلکہ اپنے عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لئے حجاز مقدس جانا پڑا اور تحریری طور پر اپنا عقیدہ کے درست ہونے کا ثبوت دینا پڑا۔ ان حالات میں عمران حکومت کے لئے انتہائی مشکل ہوتا کہ وہ اپنے اس فیصلہ پر ڈاٹے رہتے۔ عاطف میاں کا انجام یہی ہونا تھا۔ لیکن اس میں فواد چوہدری کا کوئی قصور انہوں نے کم از کم کھل کر اقلیتوں بالخصوص ایک ایسی اقلیت جسے ملک میں مسلسل دشواریوں کا سامنا ہے کے حق میں بات تو کی۔

جہاں تک معاملہ عاطف میاں کا ہے تو محترم ہارون الرشید چند روز قبل “کپتان کس خیال میں ہے؟” کے عنوان سے اپنے کالم میں کہہ چکے تھے کہ عمران خان کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑے گا اور عاطف میاں کونسل کے پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ کپتان کو فیصلہ تبدیل کرنے پر کس نے مجبور کیا۔ یقیناً فواد چوہدری کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔

http://www.humsub.com.pk/166956/newsdesk-911/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).