قادیانی مسئلہ اور عاطف میاں… محمد اظہارالحق کے جواب میں


یہ فقیر گذشتہ دس سال سے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے متنوع کالم نگاروں کا باقاعدہ قاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا پہ لکھنے والے دانشوروں کی تحریریں بھی دیکھ رہا ہے۔ ایک بات پہ ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ ہر قسم کے موضوعات پہ معتدل،منطقی اور نسبتا سچ بات کرنے والے جونہی احمدیت کے حوالہ سے بات کرتے ہیں تو ایک روایتی کجرو مولوی کے جوتوں میں پاوں ڈال لیتے ہیں۔ نہ ہی احمدیہ لٹریچر سے کسی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ نہ شائع شدہ تاریخی دستاویز کو اہمیت دیتے ہیں بلکہ سنی سنائی پہ ساری بات لکھ دیتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا ہوں۔ 1974 میں اسمبلی میں جماعت احمدیہ کا وفد پیش ہوا اور سوال وجواب ہوتے رہے۔ اس کاروائی کے متعلق یار لوگوں نے بیسیوں افسانے تراشے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے اسمبلی میں بیٹھے سارے ممبران کو کافر کہا۔ تمام مسلمانوں کو کافر کہا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری کاروائی حکومت پاکستان کی طرف سے شائع شدہ موجود ہے،جس میں ایسی کوئی بات سرے سے موجود نہیں،بلکہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ کیا آپ مفتی محمود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ جی بالکل ہم انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اور ہر وہ شخص جو خود کو مسلمان سمجھتا ہے وہ مسلمان ہے۔ (کاروائی چھ اگست 1974شائع کردہ حکومت پاکستان)ان سب دستاویزی ثبوتوں کے باجود آئے دن کوئی نہ کوئی لکھاری اس کے الٹ بات کرتا رہتا ہے اور المیہ یہ کہ یہ تحریریں قومی روزناموں میں شائع ہوتی ہیں۔ نہ ہی مدیران کو اتنی توفیق ہے کہ ان تحریروں کا استناد چیک کر سکیں،نہ ہی لکھنے والوں کو توفیق ہوتی ہے کہ اپنی غلطی مانیں۔ بارہا توجہ دلانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ احمدیت کے ایک معروف مخالف کی طرف سے شائع کردہ ’’کارروائی‘‘ سے حال ہی ’’حوالہ جات‘‘ لے کر معروف صحافی حامد میر صاحب نے کالموں کا ایک سلسلہ لکھا اور جب انہیں ان کی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی گئی تو حوالہ جات پیش کرنے میں اس لئے ناکام رہے کیونکہ ایک مولوی کی شائع کردہ کارروائی کو بنیاد بناکر تحریر لکھی گئی تھی۔ سرکاری سطح پہ شائع شدہ کارروائی کو شاید اس لئے نہیں پیش کیا جاتا کیونکہ اس میں من پسند چیزیں نہیں ملتیں۔

اس تمہید کا سبب یہ ہے کہ ایسی ہی ایک تحریر آج ہی شائع ہوئی ہے ۔ لکھنے والے معروف لکھاری محمد اظہارالحق صاحب ہیں۔ اظہار صاحب سابق بیوروکریٹ ہونے کے ساتھ ساتھ صف اول کے شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ ان سے امید یہ کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں اگر کوئی بات کریں گے تو باحوالہ اور مستند بات کریں گے نہ کہ ایک روایتی احمدی مخالف کی طرح سنی سنائی بات پہ اپنا مقدمہ پیش کریں گے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ ہمارے علما کو اندازہ ہی نہیں کہ باہر احمدیوں کو کتنے فنڈز مل رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اظہار صاحب کو خود بھی اندازہ نہیں اور نہ ہی انہوں نے جماعت احمدیہ کے مالیاتی نظام کو کبھی جاننے کی کوشش کی۔ یہ اعتراض صرف اظہار صاحب کا نہیں ہے بلکہ بہت سے لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض ہے کہ جماعت احمدیہ کا مالی نظام صرف احمدیوں کے چندہ جات سے چلتا ہے۔ کسی غیر احمدی سے کوئی امداد نہیں لی جاتی چہ جائیکہ کسی حکومت یا تنظیم سے فنڈز لئے جائیں۔ ایک واقعہ عرض کردیتا ہوں اور اس واقعہ کے راوی اور عینی شاہد سے بھی اگر اظہار الحق صاحب ملنا چاہیں تو ملاقات کا انتظام بھی کروایا جا سکتا ہے۔ 2007-08 میں جب اقتصادی بحران آیا تو کینیڈا کی حکومت نے ملک کو اقتصادی بدحالی سے بچانے اور نوکریوں کے لئے تمام چیرٹ ایبل آرگنائزیشن کو فنڈز دینے کا سوچا کہ اس سے کمیونٹی کے لئے کوئی تعمیری کام کریں۔ اسی سلسلہ میں جماعت احمدیہ نہیں بلکہ جماعت کے ایک ذیلی ادارے ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First)کو بھی چار ملین ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی گئی۔ یہ رقم ہیومینٹی فرسٹ کے اکاونٹ میں بھی آگئی تھی لیکن امام جماعت احمدیہ کے کہنے پہ یہ ساری رقم واپس کردی گئی ۔ کینیڈا کی حکومت سے بھی اس امر کی تصدیق کی جاسکتی ہے اور وہاں کے مسلمانوں میں سے بھی بہت سارے لوگ اس امر کے گواہ ہیں۔ جو جماعت اکاونٹ میں آئے پیسے واپس کردے،اس پہ فنڈز لینے کا الزام محض دشمنی یا پھر کم علمی ہے۔ نائن الیون کے بعد تمام مغربی ممالک میں جماعت احمدیہ کا آڈٹ ہو ا اور متعلقہ اداروں کی طرف سے ’کلین چٹ‘ دی گئی۔ اگر آڈٹ میں مسائل ہوتے تو پابندیاں یقینی تھیں۔ پاکستان میں بھی جماعت احمدیہ کے مرکزی ادارے کا ہر سال حکومت کی طرف سے آڈٹ ہوتا ہے۔ ایک ایک پیسہ جماعت احمدیہ کے افراد کے چندوں سے آتا ہے اور اس کی رسید دی جاتی ہے۔ رسیدوں کے حساب سے ہی متعلقہ رقم کا آڈٹ ہوتا ہے۔ کسی کو شوق ہو تو وہ متعلقہ اداروں سے اپنی تسلی کرلے۔ جماعت احمدیہ کسی بھی غیر احمدی فرد،تنظیم یا حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتی بلکہ اس کے الٹ ساری دنیا میں دکھی انسانیت کی خدمت پہ ہر سال لاکھوں کروڑوں خرچ کئے جاتے ہیں۔ تھرپارکر میں گزشتہ چند سالوں میں جماعت احمدیہ میٹھے پانی کے تین صد سے زائد کنوئیں تعمیر کر چکی ہے۔

دوسرا اعتراض اظہار الحق صاحب کا یہ ہے کہ ان نوجوان قادیانیوں کو یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ مرزا غلام احمد نے اپنے نہ ماننے والوں کو کافر کہا ہے اور انہیں جنگلوں کے سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیا کہا ہے۔ اس پر تعجب اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ قادیانی جماعت ایک بند فرقہ(CULT) ہے۔ جس کا باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی وہی مولویوں والی کہانی ہے۔ جماعت احمدیہ کے بانی نے کہیں بھی اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور جنگلی سور وغیرہ نہیں کہا۔ جماعت احمدیہ کے نزدیک ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ کفرواسلام کی بحث بہت وسیع ہے۔ کیا نماز چھوڑنے والے کو احادیث میں کافر نہیں کہا گیا۔ اسی طرح اور بھی بہت ساری اقسام ہیں کفر کی جن کو جاننے کے باوجود یہ کہنا کہ مرزا صاحب نے مسلمانوں کو کافر کہا ہے دیانتداری کا شیوہ ہرگز نہیں۔ جنگلی سور آپ نے اپنے نہ ماننے والوں کو ہرگز نہیں کہا بلکہ دن رات گالیاں دینے والوں اور دشمنی کرنے والوں کو کہا ہے جو کسی قسم کا دقیقہ آپ کے خلاف فروگذاشت نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ دشنام طرازی ان کا شیوہ تھی۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جماعت احمدیہ ایک بند فرقہ ہے یہ بھی لاعلمی کا شاخسانہ ہے۔ اظہار صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ربوہ آنے کی دعوت قبول کریں اور خود دیکھیں کہ آیا یہ ایک بند جماعت ہے یا اپنی بانہیں کھول کے آپ کا استقبال کرتی ہے۔ ایک طرف یہ الزام کہ یہ ساری دنیا میں پھیل کر تبلیغ کررہے ہیں اور اسی سانس میں بند فرقہ کہہ دینا بھی ایسا کمال ہے جو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ جماعت احمدیہ کے مرکزی دفاتر کھلے ہوئے ہیں۔ ہسپتال،اسکول و کالجز کھلے ہوئے ہیں،دنیا بھر میں تبلیغی و اشاعتی سرگرمیاں سرعام ہورہی ہیں،ہر سال مختلف قومیتوں کے لاکھوں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہورہے ہیں اور ان ساری سرگرمیوں کی رپورٹس وقتا فوقتاً پوری دنیا میں دیکھے جانے والے جماعت احمدیہ کے ٹی وی چینل پر نشر ہوتی رہتی ہیں۔ کیا اسی کو بند فرقہ کہتے ہیں؟جماعت احمدیہ کا مرکزی جلسہ سالانہ تینوں دن براہ راست نشر ہوتا ہے،کیا بند فرقہ اسی کو کہتے ہیں۔ در حیرتم!

اظہار صاحب فرماتے ہیں کہ آمریت کا یہ عالم ہے کہ ارکان کی زندگیاں بھی ’’اوپر‘‘ سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ کیا اسلام میں نبی یا خلیفہ کا حکم ماننا بھی آمریت کے زمرے میں شمار ہوگا؟جماعت احمدیہ میں جو شامل ہوتا ہے اسے جماعت سے خارج کرنا کسی کے اختیار میں نہیں۔ خلیفہ وقت بھی ایسا نہیں کرسکتے،لیکن اظہار صاحب شاید نہیں جانتے کہ جماعت احمدیہ میں ایک نظام ہے جسے نظام جماعت کہا جاتا ہے۔ ہر نظام کی طرح اس نظام میں بھی کچھ پابندیاں ہیں جنہیں فالو کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے اس نظام کا حصہ بنتا ہے تو انہی شرائط پہ نظام کا حصہ بنتا ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے گا۔ اگر کوئی اطاعت نہیں کرتا یا شرائط کی پابندی نہیں کرتا تو اسے نظام جماعت سے خارج کردینے میں کون سی آمریت ہے۔ کیا سیاسی پارٹیوں سے ارکان کو نکالنا روٹین نہیں؟کیا وہ بھی آمریت ہے۔ اسی طرح اگر ایک مذہبی نظام سے کسی کو خارج کیا جائے تو اس میں کون سی آمریت!کیا رسول اللہ ﷺ کو بعض اصحاب سے مقاطعہ کا حکم نہیں ملا تھا جنہیں بعد ازاں معافی مل گئی،اسی طرح نظام جماعت احمدیہ سے خارج ہونے والے دوبارہ نظام میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور یہ سارا کچھ بھی ایک نظام کے تحت ہوتا ہے جس کے چلانے والے گراس روٹ لیول تک موجود ہوتے ہیں۔

اس کے بعد اظہار صاحب دور کی کوڑی لائے ہیں کہ ’’ لندن میں بیٹھی اس گروہ کی ہئیت مقتدرہ نئی نسل سے بہت سے قادیانی عقائد کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ‘‘جماعت احمدیہ کے لٹریچر پہ آپ پابندی لگائیں۔ جماعتی رسائل و اخبارات کو آپ بند کردیں ،جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ تک کوآپ بند کردیں،لیکن قادیانی عقائد کو چھپانے کی کوشش جماعت احمدیہ کررہی ہے۔ حیرت ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی کتب احمدیوں کے پاس رکھنے اور انہیں شائع کرکے بیچنے پہ پابندیاں آپ لگائیں،لوگوں کو ان کے مطالعہ سے آپ منع کریں،لیکن انہیں چھپانے کا الزام جماعت احمدیہ پہ لگا دیں۔ جماعت احمدیہ کے خلیفہ تو آئے دن اپنے خطبات وخطابات میں اپنے عقائد کا اعلان علی الاعلان کرتے رہتے ہیں۔ نوجوان نسل کو ان عقائد سے آگاہی کے لئے مختلف پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں،جس کا تذکرہ مخالفین آئے دن کرتے رہتے ہیں کہ انہیں ’تبلیغ‘ سے روکا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انہیں چھپایا جارہا ہے۔ حضور!ہم تو انہیں بیان کرنے کے چکر میں ہیں آپ بس پابندیاں ہٹوا دیں یا پھر کم از کم اپنی تضاد بیانی سے رجوع کرلیں۔

یہ فقیر پیدائشی احمدی ہے۔ بچپن سے نظام جماعت کا حصہ ہے۔ بچپن سے اب تک مختلف جماعتی تنظیمی عہدوں پہ کام کرنے کی توفیق ملی،لیکن آج تک کبھی ایک دفعہ بھی نہ کسی آمریت کا احساس ہوا نہ کسی نے آمر بننے کی کوشش کی۔ نہ کبھی سوال پوچھنے پہ پابندی لگی نہ کبھی کوئی عقیدہ چھپانے کی کوشش ہوئی۔ حضرت مرزا صاحب کا تمام تر لٹریچر شائع شدہ موجود ہے،اگر عقائد چھپانے کی کوشش ہوتی تو لٹریچر شائع ہی کیوں کیا جاتا؟پاکستان میں اس لٹریچر پہ پابندی ہے لیکن آن لائن یہ تمام لٹریچر موجود ہے اسے دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ تمام دنیا میں یہ لٹریچر شائع ہورہا ہے اور اس کے تراجم بھی ہورہے ہیں۔ کیا اس کو چھپانا کہتے ہیں۔ محمد اظہار الحق صاحب! اسے چھپانا نہیں چھاپنا کہتے ہیں۔ باقی آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ مولویوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ بات کرنی چاہئے لیکن ایسا تب ہوتا ہے جب آپ کے پاس دلیل ہو۔ جب دلیل ختم ہوجائے تو صرف گالی اور گولی بچتی ہے اور احمدیوں پہ آپ یہی آزما رہے ہیں۔ عاطف میاں کے ایمان کے متعلق کچھ فرمانے سے قبل ان کے قبول احمدیت کی داستان پڑھ لیتے تو شاید ایسا نہ لکھتے۔ وہ روایتی اسلام کے ٹھیکیداران کی بد اعتقادیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے ہی اسلام احمدیت میں داخل ہوئے۔ انہیں آپ اس “اسلام” میں بلا رہے ہیں جس کا مظاہرہ یہ قوم پچھلے ایک ہفتے سے کررہی ہے۔ یہ سب کچھ ہے مگر اسلام نہیں اور احمدیوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ہم اپنے ایمان پہ قائم ہیں اور ان شاء اللہ قائم رہیں گے۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad