مستقبل کا پاکستان


\"moazzamپاکستان کی جیسی تصویر ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں پیش کی جاتی ہے، ایک مخصوص طبقہ اپنی کاوشوں میں پاکستانی معاشرے کی جیسی منظر کشی کرتا ہے اور جس طرح معاشرے کی اچھائیوں کی کوئی جگہ میڈیا میں نہیں جبکہ برائیاں سو سو گنا بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں اگر صرف اسے مد نظر رکھا جائے تو مستقبل کا مورخ پاکستان کے بارے میں جو لکھے گا وہ کچھ یوں ہو سکتا ہے۔

بیسویں صدی عیسوی میں براعظم ایشیا میں ایک ملک ہوا کرتا تھا۔۔ نام تھا پاکستان۔۔۔

وہاں بڑے خونخوار لوگ بستے تھے۔ پتھردل اور وحشی۔۔۔ تہذیب نام کو نہ تھی۔ ہر گھر میں قاتل بستے تھے۔ جن کا مرغوب مشغلہ عورتوں پر تیزاب پھینکنا، غیرت کے نام پر روز ایک نہ ایک قتل کرنا، اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنا تھا۔ ہر فرد اپنے ہاتھ میں ایک چھرا پکڑے گھومتا تھا جس سے غیرت کے نام پر مسلک، فرقے کے نام پر اور دیگر بہانوں سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے ہوتا تھا۔ کوئی امن پسند فرد وہاں نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ لوگ کسی امن پسند کو برداشت نہیں کرتے تھے۔

ہر محلے میں ایک عمارت تھی جہاں لوگوں کو خونخواری اور قتل و غارت گری کی تعلیم دی جاتی تھی۔ سب جوق در جوق وہاں داخلہ لیتے، ٹریننگ حاصل کرتے اور قتل و غارت گری میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔ ایسی عمارت کو مقامی زبان میں مسجد یا مدرسہ کہا جاتا تھا۔ عورتوں کی عزت و حرمت تو بالکل محفوظ نہیں تھی۔ روزانہ کروڑوں خواتین کی عزتیں نیلام ہوتیں۔ پر شخص ہزاروں خواتین کے قتل اور اہانت کا مجرم تھا۔ کوئی اس کے خلاف زبان بھی کھولتا تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے بہت شوقین تھے روزانہ کروڑوں عورتوں پر تیزاب پھینکا جاتا تھا۔

کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم رہتا۔ ہر بندہ کرپٹ تھا۔ لوگ صرف کرپٹ لیڈروں کو منتخب کرتے تھے۔ سب سے بڑا لیڈر اسے بنایا جاتا تھا جو سب سے زیادہ ناجائز دولت اکٹھی کر سکتا تھا۔ کوئی اس ظلم کے خلاف زبان کھولتا تو اسے زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ سب لیڈر اور سرکاری عمال کرپٹ تھے۔

سب سے زیادہ دشمنی اس قوم کو تعلیم سے تھی خاص کر بچیوں کی تعلیم سے۔ پورے ملک میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں بچیاں تعلیم حاصل کر سکتیں۔ اگر کوئی بچی اسکول کا رخ بھی کرتی تو اسے گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا۔ اس کی جان اسی صورت بچ سکتی تھی کہ کسی دوسرے ملک میں اسے پناہ مل جاتی۔ ورنہ موت اس کا مقدر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی ایک خاتون بھی پڑھی لکھی نہ تھی۔

اس گھٹن زدہ معاشرے میں کسی کو زبان بھی کھولنے کی اجازت نہ تھی کوئی کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھا۔ صرف گولی کی زبان میں بات کی جاتی تھی۔ وہ صرف تشدد کی زبان سمجھتے تھے۔ دلیل اور تفہیم جیسے الفاظ کا کوئی وجود نہ تھا۔

وہ جگہ ساری دنیا کے مجرموں اور دہشت گردوں کی جنت تھی۔ جس وقت دنیا کے باقی سب ممالک میں خوشحالی اور امن و آتشی کا دور دورہ تھا، لوگ پیار محبت اور سکون سے مل جل کر رہتے تھے کہیں جرم کا نام ونشان نہ تھا ایسے میں یہی ایک ملک تھا جہاں ساری دنیا کے دھتکارے ہوئے مجرموں کو پناہ ملتی تھی۔ یہ لوگ دہشت گردوں کے سب سے بڑے سرپرست تھے۔ ہر گھر میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تھیں۔ دنیا کے تمام دیگر ممالک پرامن، ہمدرد اور نیک تھے جنہوں نے بہت کوششیں کیں کہ یہ خطہ بھی امن کا گہوارہ بن جائے لیکن یہاں کے لوگ خود امن و خوشحالی کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ امن اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر دیگر ممالک ہر روز ہوائی جہازوں کے ذریعے خیر سگالی کے پھول برساتے لیکن یہ ایسے ظالم اور سفاک لوگ تھے کہ ان پھولوں کا جواب بھی پتھر سے دیتے۔ ان کی ساری معیشت کا دارومدار بیرونی امداد پر تھا دنیا کے نیک دل ممالک ہمدردی کے طور پر ان لوگوں کو امداد دیتے جس پر ان کی گزر بسر ہوتی اس پر بھی وہ لوگ خوش نہ تھے اور انہی امداد دینے والے ملکوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے۔ ہمسایہ ممالک نے بہتیری کوششیں کر ڈالیں امن قائم کرنے کی مگر یہاں کے لوگ کسی بھی ہمسائے سے بنا کر رکھنے کے عادی نہ تھے۔ رحم دل ہمسائیوں کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور پھول کا جواب گولی سے دینے کی عادی یہ قوم کہیں امن قائم نہ کر سکی۔

 

معظم معین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

معظم معین

لاہور سے تعلق رکھنے والے معظم معین پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہیں اور سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ہلکے پھلکے موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں

moazzam-moin has 4 posts and counting.See all posts by moazzam-moin

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments